• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

مشترکہ گھر میں پردہ کا حکم

  • فتوی نمبر: 3-111
  • تاریخ: 04 اپریل 2010

استفتاء

ہندوستانی ماحوم میں خاندانی نظام میں مل جل کر رہنے کو ترجیح دی جاتی ہے اور بعض دفعہ شریعت کے مطابق بھی کیا جاتا ہے، واللہ اعلم۔ بہر حال ایسی بچیاں جو شرعی پردے کا اہتمام کرتیں ہیں ان کو شادی کے بعد یہ مسائل پیدا ہوتے ہیں کہ علیحدہ کھانا اور رہنے میں شرعی پردہ سہولت سے کرلیتی ہیں لیکن بعض دفعہ خاوند  وسائل کے اعتبار سے یا والدین  یا خاندان کے اس کو اچھا نہ سمجھنے کی وجہ سے ایسا  سکنی اور نفقہ نہیں مہیا کر سکتا ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

عورت کے لیے اصل تو یہی ہے کہ جہاں تک ہوسکے اس کے جسم کا کوئی بھی حصہ غیر محرم مردوں کےسامنے نہ آئے، نہ ہاتھ، نہ پاؤں اور نہ ہی چہرہ۔

البتہ بہت ہی مجبوری ہو مثلاً مشترکہ گھر ہونے کی وجہ سے ہر وقت کا پردہ  نبھ نہیں سکتا تو ایسی حالت میں  اس بات کی گنجائش ہے کہ اپنا چہرہ اور دونوں ہاتھ کلائی کے جوڑ تک اور دونوں پاؤں ٹکنے کے نیچے تک کھلے رکھے جائیں، اس کے علاوہ بدن کا دوسرا کوئی حصہ مثلاً سر اور پنڈلی یا بازو وغیرہ کو کھولنا جائزنہیں۔ چنانچہ ایسی خواتین کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنےسر کو خوب اچھے طریقے سے بڑی چادر کے ساھ ڈھانپ کر  رکھیں، کرتہ بڑی آستین والا پہنیں، اور غیر محرم مردوں کے ساتھ بے تکلف اور ضرورت سے زائد گفتگو نہ کریں۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved