- فتوی نمبر: 5-274
- تاریخ: 27 دسمبر 2012
- عنوانات: مالی معاملات > خرید و فروخت
استفتاء
میرا نام** ہے۔ میں نے آج سے تین ماہ پہلے&& نامی شخص کے ساتھ ڈیل کی تھی جس میں، میں نے پچاس ہزار روپے ایڈوانس کے طور پر** کو دیے تھے اور ڈیل یہ تھی کہ ** 200 من مونجی کی قسم سوپری جو 6 قلعے رقبہ زمین پر لگی ہوئی ہے اس نے کہا کہ میں 200 من مونجی کا بندوبست کردوں گا اگر کچھ کمی ہوئی تو اپنے قریب واقف لوگوں سے لے لوں گا اس کی آپ فکر نہ کریں۔ مجھے دے گا۔ اس فصل کا میوہ پک چکا تھا اس نے مجھے اس فصل کا نمونہ بھی دکھایا تھا، لیکن اس کی کٹائی پر کچھ وقت (30 یا 35 دن) لگنا تھا اور ریٹ کے بارے میں یہ طے ہوا کہ مونجی حوالگی کے وقت مارکیٹ ریٹ سے 10 فیصد کم ہی قیمت ہوگی۔ اس کا ایڈوانس 50 ہزار روپے میں دے چکا تھا۔
میرا چونکہ**سے پہلی بار معاملہ ہوا تھا اور یہ معاملہ اس کے ایک کزن کے ذریعے ہو رہا تھا تو میں نے اس سے پوچھا کہ یہ*****بر وقت حوالہ کر دے گا تو اس نے کہا کہ ہاں کیونکہ اس کی اپنی فصل لگی ہوئی ہے اور اس کے کزن نے کہا کہ آپ فکر نہ کریں اس نے مجھے پچاس ہزار کا چیک بطور ضمانت دے دیا کہ اگر** پیسے یا فصل نہ دے گا تو وہ مجھے پیسے ( بیعانہ کی رقم) دے دے گا۔ پھر یوں ہوا کہ تیس دن بعد میں ** سے فون کے ذریعے رابطہ کرتا رہا لیکن وہ فون نہ اٹھاتا تھا، اس طرح سات آٹھ دن گذر گئے پھر ایک دن میں**کے گھر گیا ت** گھر پر نہ ملا۔ اس کی والدہ سے میری بات ہوئی تو اس کی والدہ نے کہا کہ انہوں نے یہ فصل کسی اور کو بیچ دی ہے اور** نے گھر میں یہ بتایا کہ ** ( میں) نے فصل لینے سے انکار کردیا ہے حالانکہ اس کے ساتھ میری بات تک نہیں ہوئی تھی۔ اس کی والدہ نے کہا کہ ان کی فصل 132 من ہوئی تھی اور 1130 روپے من کے حساب سے آگے بیچ دی گئی ہے اس طرح دو ماہ گذر گئے۔ پھر ایک دن** کی والدہ اور اس کا بھائی اس کے کزن کے ہمراہ میرے پاس آئے۔ انہوں نے پچاس ہزار روپے واپس کر دیے۔ میں نے**کی والدہ کو اپنے اس ڈیل کے لیے آنے جانے ، موبائل پر بار بار رابطہ کرنے پر ہونے والے خرچہ کے بارے میں بتایا جو کہ تقریباً چار سے پانچ ہزار روپے تک تھا، تو انہوں نے تین ہزار روپے دینے کا فیصلہ کیا۔ میں نے چھ ہزار کا مطالبہ کیا۔ کافی بحث کے بعد وہ چھ ہزار روپے دینے پر تیار ہوگئے ۔ انہوں نے اس کی ادائیگی کے لیے ایک ہفتہ یعنی سات دن کا وقت مانگا لیکن اس وقت کے اندر انہوں نے مجھے پیسے نہیں دیے۔ میں نے ان کو ایک ہفتہ کا مزید وقت دیا لیکن انہوں نے پیسے نہ دیے۔ ایک دن میں نے ** کے کزن کو کہا کہ انہیں فون کر کے بتا دیں کہ ہماری پرانی بات اب ختم ہوگئی، معاملہ نئے سرے سے حل کریں گے اور اس خرچہ پر دوبارہ بات کریں گے۔ ** کے کزن نے ان کو ایسا ہی کہا لیکن انہوں نے کچھ جواب نہ دیا۔ بالآخر میں نے** کے کزن کے پچاس ہزار روپے جو ضمانت کے طور پر میرے پاس تھا میں نے کیس کرالیا۔ اس طرح اس کے کزن کے پچاس ہزار روپے میرے پاس آگئے۔ میں نے اس کے کزن کو کہا کہ میرے بیعانہ کے ساتھ پچاس ہزار روپے بھی مجھے مل گئے ہیں اور اب مجھے آپ سے کوئی بات نہیں کرنی۔ جس پر **کا کزن اس سے ملنے گیا اور ان سے کافی بحث کر کے آیا۔ ** نے وعدہ کیا کہ وہ ہفتہ کے دن مجھے ملنے آئے گا اور وہ ہفتہ کے دن آیا اور بہت معذرت کرنے لگا اور کہا کہ پچاس ہزار جو عابد ( میرے کزن) کے ہیں ان میں 10 ہزار رکھ لیں اور باقی عابد کو واپس کردیں۔ میں نے کافی انکار کے بعد ہاں کر دی۔ اور چالیس ہزار کا چیک عابد کو واپس کردیا۔ عابد بھی اس وقت**کے ساتھ تھا۔ میری ڈیل کے مطابق اپنی زمین کی 132 من مونجی جو اس نے مجھے بیچنی تھی اور معاہدہ چونکہ اس نے مارکیٹ ریٹ سے دس فیصد ڈسکاؤنٹ بھی دینا تھا یہ ڈسکاؤنٹ تقریبا 15180 روپے بنتے ہیں۔ تو جب اس نے یہ فصل کسی اور کو بیچ دی تو میرا یہ نقصان ہوگیا جب کہ میں نے ** سے صرف دس ہزار روپے لیے ہیں۔
کیا میرے لیے یہ دس ہزار روپے لینا شرعاً درست ہے؟ اگر یہ درست نہیں تو اس ڈیل پر جو میرا خرچہ جس کی تفصیل گذر چکی ہے کیا میں اس حد تک** سے پیسے لے سکتا ہوں؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
اپنے پیسوں کی وصولی پر جو حقیقی خرچہ آیا ہے دس ہزار میں سے وہ وصول کرسکتے ہیں باقی رقم صدقہ کردیں۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved