- فتوی نمبر: 5-395
- تاریخ: 18 اپریل 2013
- عنوانات: مالی معاملات > خرید و فروخت
استفتاء
کیا چست پینٹ شرٹ پہننا جائز ہے۔ ایسی پینٹ شرٹ کا تیار کرنا، اور اسے فروخت کرنا جائز ہے یا نہیں؟ ایک عالم صاحب نے یہ کہا تھا کہ چونکہ پینٹ شرٹ میں پہلے انگریزوں کی مشابہت تھی اور اب وہ نہیں رہی اس لیے جائز ہے۔ جبکہ دوسرے صاحب یہ فرما رہے تھے کہ چست پینٹ بالکلیہ ناجائز ہے چاہے انگریزوں کی مشابہت ہو یا نہ ہو۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
پینٹ اگر اتنی چست اور تنگ ہو کہ اس میں اعضاء کی ساخت اور حجم نظر آتا ہو تو اس کا پہننا ناجائز ہے اور ایسی پینٹ کا بنانا اور اس کی خرید و فروخت بھی ناجائز ہے۔([1]) اور اگر پینٹ اتنی چست نہ ہو بلکہ ڈھیلی ڈھالی ہو جس میں اعضا کی ساخت اور حجم نظر نہ آتا ہو تو ایسی پینٹ کے استعمال میں اگرچہ مشابہت والی بات مغلوب ہوگئی ہے لیکن پھر بھی نیک لوگوں کا لباس اختیار کرنا چاہیے اس لیے ایسی پینٹ کا استعمال مکروہ تنزیہی یعنی خلاف اولیٰ ہے اور یہی حکم اس کو تیار کرنے اور فروخت کرنے کا ہے۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم
([1]) ایسی پینٹ پہنے ہوئے آدمی کی طرف دیکھنے کا کیا حکم ہے؟ یہ بات ذرا غور طلب ہے۔ شامی کتاب الصلاة میں اس کی بابت عبارت یہ ہے:
قول لا يضر التصاقه بالإلية و قوله و تشكله من عطف المسبب على السبب و عبارة المنيةأما إذا كان غليظاً لا يرى منه لون البشرة إلا أنه التصق بالعضو و تشكل بشكله فصار شكل العضو مرئياً فينبغي أن لا يمنع جواز الصلاة لحصول الستر. قال ط و انظر هل يحرم النظر إلى ذلك المتشكل مطلقاً أو حيث وجدت الشهوة. قلت سنتكلم على ذلك في كتاب الحظر و الذي يظهر من كلامهم هناك هو الأول. ( شامى: 1/ 302)
اور كتاب الحظر کی جس عبارت کی طرف اشارہ کیا ہے وہ یہ ہے:
في الدر: نظر لعورة غيره و هي غير بادية لم يأثم. و في الحاشية: قوله ( غير بادية) أي ظاهرة و في الذخيرة و غيرها و إن كان على المرأة ثياب فلا بأس بأن يتأمل جسدها و هذا إذا لم تكن ثيابها ملتزقة بحيث تصف ما تحتها و لم يكن رقيقاً بحيث يصف ما تحته فإن كانت بخلاف ذلك فينبغي له أن يغض بصره . و في التبيين قالوا و لا بأس بالتأمل في جسدها و عليها ثياب ما لم يكن ثوب يبين حجمها فلا ينظر إليه حينئذ. لقوله عليه الصلاة و السلام ’’ من تأمل خلف المرأة و رأى ثيابها حتى تبين له حجم عظامها لم يرح رائحة الجنة ‘‘و لأنه متى لم يصف ثيابها ما تحتها من جسدها يكون ناظراً إلى ثيابها و قامتها دون أعضائها فصار كما إذا نظر إلى حيمة هي فيها و متى كان يصف يكون ناظراً إلى أعضائها.
أقول مفاده أن رؤية الثوب بحيث يصف حجم العضو ممنوعة و لو كثيفاً لا ترى البشرة منه قال في المغرب يقال مست الحبلى فوجدت حجم الصبي في بطنها أو حجم الثدي على نحر الجارية إذا نهز. و حقيقته صار له حجم أي .. و ارتفاع و منه قوله حتى يتبين حجم عظامها. على هذا لا يحل النظر إلى عورة غيره فوق ثوب ملتزق بها يصف حجمها ما مر على ما إذا لم يصف حجمها فليتأمل.
ان عبارات سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسے چست کپڑے پر سے جسم کو دیکھنا مطلقاً ناجائز ہے خواہ مرد ہو یا عورت ہو خواہ شہوت کے ساتھ ہو یا نہ ہو لیکن رافعی رحمہ اللہ نے اس پر درج ذیل الفاظ میں استدراک کیا ہے:
قال الرافعي قوله ( و على هذا لا يحل النظر إلى عورة) فيه أنه ما نقله إنها هو في النظر إلى المرأة و عليها ثياب ملتصقة بها تصف جرمها و هذا لا يفيد أن الحكم في الرجل كذلك للفرق الظاهر بينها. و تخصيصهم الحكم المذكور بها يفيد أنه ليس كالمرأة فيه و على ما قاله لا يخفى ما فيه من الحرج خصوصاً في زماننا المعتاد فيه لبس الثياب الأفرنجية للكثير من أصناف الناس مما يصف ما تحتها و الظاهر إبقاء ما نقله الشارح على عمومه في حق الرجل و رأيت في شرح المنتهى الحنبلي ما نصه و يجب ستر عورة بما لا يصف البشرة أي لونها لأن الستر إنما يحصل بذلك لا أن لا يصف حجم العضو لأنه لا يمكن التحرز عنه. (شامی: 9/ 604- 603)
علامہ رافعی رحمہ اللہ نے اس عبارت میں مرد و عورت کے درمیان فرق کا قول کیا اور بظاہر یہ فرق ہونا بھی چاہیے لیکن اس فرق کی بنیاد کیا ہے؟ یہ ذکر نہیں کی۔ محض اس وجہ سے کہ فقہاء کی مذکورہ بالا عبارتوں میں صرف عورت کا ذکر ہے مرد کا نہیں یہ وجہ استیناس کے درجہ میں تو ہوسکتی ہے بذات خود اس فرق کی بنیاد اور دلیل نہیں۔ پھر کیا وجہ ہے؟
بظاہر یہ سمجھ میں آتا ہے کہ یہاں ستر عورت/ کشف عورت کا مسئلہ نہیں کیونکہ چست لباس میں نماز صحیح ہے۔ پھر مسئلہ ہے تو مظنہ شہوت ہونے کا ہے اور چونکہ عورت کا جسم مظنہ شہوت ہے اس لیے اس میں مطلقاً ناجائز ہو اور مرد کا جسم خصوصاً جبکہ بالغ ہو مظنہ شہوت نہیں اس لیے یہاں شہوت کی قید ہونی چاہیے۔
حاصل یہ بنا کہ مرد کے چست لباس کی طرف دیکھنا جائز ہوا اور عورت کے ایسے لباس کی طرف دیکھنا ناجائز ہوا۔
لیکن اس پر اگلا سوال یہ سامنے آتا ہے کہ جب مرد کے لیے ایسے لباس کی طرف دیکھنا جائز ہے تو اس کے لیے ایسا لباس پہننا بھی جائز ہونا چاہیے کیونکہ لباس کی ممانعت اور جواز کا تعلق دیکھنے سے ہے۔ چنانچہ جہاں دیکھنے کا مظنہ نہ ہو وہاں نہ صرف چست لباس بلکہ بالکلیہ کشف عورت بھی جائز ہے۔ مثلاً خالی کمرہ اور غسل خانے وغیرہ میں جہاں کسی اور کے دیکھنے اور آنے کا مظنہ نہ ہو۔ تو جب لباس کا حکم دیکھنے کے ساتھ متعلق ہے اور مرد کے چست لباس کی طرف دیکھنا جائز ہے تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ ایسے لباس کو مرد کے لیے ناجائز کہا جائے۔
مفتی عبد الواجد صاحب کا تبصرہ: مرد میں بھی التصاق حیاء کے خلاف ہے اگرچہ تشکل نماز کی ادائیگی میں مانع نہ ہو کیونکہ کچھ نہ کچھ تشکل تو ان کپڑوں میں بھی ہوتا ہے جو نسبتاً ڈھیلے ہوں۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved