• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

قل کے کھانوں اورپھلوں کاحکم

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

میت کے قل پے جو پھل وغیرہ تقسیم کیےجاتے ہیں ان کو کھانا جائز ہےیانہیں رہنمائی فرمائیں

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

میت کے قل پر جو کھانا تیار کیا جاتا ہے وہ بدعت ہے لہذا ایسا کھانا مکروہ ہے۔

فی الشامية:وفي البزازية،ويکره اتخاذ الطعام في اليوم والثالث وبعد الاسبوع

في الهندية:1/127

ولايباح اتخاذ الطعام ثلاثة کذا في التتارخانية

في فتح القدير:1/473

ويکره اتخاذ الضيافة من الطعام من اهل الميت لانه شرع فی السرور لافي الشرور وهي بدعة مستقبحة

راہ سنت بحوالہ مدخل(3/215)میں ہے:

اما اصلاح اهل الميت طعاما وجمع الناس فلم ینقل فيه شيئ وهو بدعة غير مستحبة

کفايت المفتی(4/135)میں ہے:

سوال: میت کے لیے تیسرے دن قل وساتواں وچالیسواں کرنا اوراسقاط میت کا کرانا ؟جیسا کہ آج کل مروج ہے، ایسا کرنا قرآن حدیث سے ثابت ہے یا نہیں؟

جواب: ایصال ثواب جائز ہےمگر قل اور ساتواں، دسواں، چہلم یہ سب بدعات ہیں اپنی حیثیت اور مقدار کے موافق جو کچھ میسر ہواور جب میسر ہو صدقہ کر کے ثواب بخش دینا چاہیے، اسقاط کا مروجہ طریقہ بھی ناجائز ہے ،ایصال ثواب کے لیے کھانا شرینی سامنے رکھ کر فاتحہ پڑھنا بے اصل ہے بلکہ جیسے نقدی وغیرہ بغیر فاتحہ صدقہ کر دیتے ہیں، اسی طرح کھانے شرینی کے ساتھ بھی معاملہ کرنا چاہیے۔

امداد الفتاویٰ (4/119) میں ہے:

سوال (۲۴۱۴) :  قدیم  ۴/ ۱۱۹-   اول روز اہالیانِ میت جو طعام کرتے ہیں اُس کی کوئی سند شرعی صحیح موجود ہے یا نہیں ؟ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے میت کے گھر کا طعام کھایا ہے یا نہیں ؟

الجواب:  في ردالمحتار عن الفتح: ویکرہ اتخاذ الضیافةمن الطعام من أهل المیت؛ لأنه شرع في السرور لا في الشرور، وهي بدعة مستقبحة روی الإمام أحمد وابن ماجة بإسناد صحیح عن جریر بن عبد الله قال: کنا نعد الاجتماع إلی أهل المیت وصنعهم الطعام من النیاحة اھ۔ وفي البزازیة: ویکرہ اتخاذ الطعام في الیوم الأول والثالث وبعد الأسبوع الخ (۱)۔

اس روایت حدیثیہ فقہیہ سے اس طعام کی کراہت ثابت ہوتی ہے، بعض لوگوں نے جناب رسول اللہ  ا کے میّت کے گھر سے کھانے پر ابو داؤد کی اس حدیث سے استدلال کیا ہے:

عن رجل من الأنصار قال: خرجنا مع رسول الله  صلی الله علیه وسلم في جنازۃ فرأیت رسول الله ﷺ وهو علی القبر یوصی الحافر ’’أوسع من قبل رجلیه أوسع من قبل رأسه‘‘ فلما رجع استقبله داعي امرأۃ فجاء فجیٔ بالطعام، فوضع یدہ، ثم وضع القوم، فأکلوا۔ الحدیث (۱)

سو اس کے تین جواب تو ردالمحتار میں ہیں :

أقول: وفیه نظر، فإنه واقعة حال لا عموم لها مع احتمال سبب خاص علی أنه بحث في المنقول في مذهبنا ومذهب غیرنا کالشافعیة والحنابلة استدلالا بحدیث جریر المذکور علیٰ الکراهة، ولا سیما إذا کان في الورثةصغار إلٰی آخر ما قال وأطال (۲)۔

جواب اوّل کاخلاصہ یہ ہے کہ ایک واقعہ خاصہ ہے ممکن ہے کہ کسی سبب خاص سے آپؐ نے کھانا تناول فرمایا ہو، اس سے دلیل نہی میں جو عام ہے، قدح نہیں لازم آتا۔ دوسرے جواب کا حاصل یہ ہے کہ جو امر مذہب میں متقرر و منقول ہے اور خود مبنی بھی ہے دلیل صحیح پر، اس میں بحث اور شبہ نکالنا ہے جو مقلد کا حق نہیں ہے۔ تیسرے جواب کا ملخص یہ ہے کہ اب طعام میّت کے ساتھ بہت سے مفاسد کا اقتران ہوگیا ہے، سو اس کی اجازت میں سب مفاسد کی اجازت لازم آتی ہے، پس مضمون حدیث پر اس امر منکر کو قیاس کرنا قیاس مع الفارق ہے۔ اور چوتھا جواب اس احقر کے نزدیک یہ ہے کہ اس حدیث میں یہی امر کہیں مذکور نہیں کہ یہ طعام میّت کے گھر تھا، گو شرح منیہ میں دعویٰ کیا ہے۔ دعته امرأۃ رجل میت لما رجع من دفنه الخ (۳)۔ لیکن کسی حدیث کی کتاب کا حوالہ ضروری ہے۔ وإذلیس فلیس،پانچواں جواب  یہ ہے: إذا تعارض المحرم والمبیح ترجح المحرم (۱)۔ بہرحال جس طرح اس وقت رسم ہے وہ بے شبہ ممنوع ہے، اور وہ شارع علیہ السلام سے قولاً وفعلاً منقول نہیں فقط۔

فتاویٰ محمودیہ (9/275) میں ہے:

سوال :- تیجا ،دسواں ،بیسواں ،چالیسواں ،کھانا جائز ہے یانہیں ؟

الجواب :ناجائز ہے ،البتہ جو شخص فقیرمحتاج ہو اس کو کھانے کو نہ ملتا ہواس کیلئے جائز ہے۔

امدادالاحکام (4/119) میں ہے:

سوال:  ہمارے دیار میں لوگ مرنے کے بعد بعض جگہ تعیین تاریخ کے ساتھ اور بعض جگہ بلاتعیین ایک ضیافت کرکے عام لوگوں کو کھانا کھلاتے ہیں، ہرطرح کے آدمی اس میں حاضر رہتے ہیں کیا یہ شرعاً جائز اور باعث ثواب ہے یا مکروہ؟ برتقدیرثانی وجہ کراہت کیا ہے، کتب فقہ اورحدیث مع حوالہ صفحہ تحریر فرمادیں، کوئی عالم فرماتے ہیں کہ اگر عام طور پرلوگوں کوکھانا کھلانا مکروہ ہو تو حنفی مذہب کی معتبرکتابوں میں اگر وہ مسئلہ مع مالہا وعلیہاموجود ہو تو ہم ضرورتسلیم کریں گے ۔ردالمحتارکی عبارت    نقلا عن الفتح ویکرہ اتخاذ الضیافة من الطعام من اھل المیت لانه شرع فی السرور لافي الشروروهی بدعة مستقبحة روی الامام احمد وابن ماجة باسناد صحیح عن جویربن عبدالله قال کنا نعد الاجتماع الیٰ اهل المیت وصنعهم الطعام من النیاحة وفی البزازیة ویکرہ اتخاذ الطعام فی الیوم الاول والثالث وا لاسبوع، جس کو امداد الفتاویٰ (ص ۱۵۵س۲) میں نقل کیا ہے، وفی ردالمحتار ص۳۹ج ۵) ومنها الوصیة من المیت باتخاذ الطعام والضیافة یوم مرته اوبعدہ اوباعطاء دراهم لمن یتلوا القراٰن لروحه اویسبح اویهلل وکلها بدع مکرات باطلة والماخوذ منها حرام للاکل وهوعاص بالتلاوۃ والذکرلاجل الدنیا،

مسئلہ ہذا کے اثبات کے لیے کافی وافی ہے یانہیں، برتقدیر اول چندادلہ شرعیہ اور اضافہ کرکے مع حوالہ صورت مسئولہ کوبالوضاحت تحریر فرمادیں ، اور حدیث جریر کے متعلق بسط کے ساتھ تحریر فرمادیں کہ اس کامحمل صحیح اور مفہوم واقعی کیا ہے، تاکہ رفع اشتباہ ہوجائے۔نیزبتلایئے کہ کیا طعام المیت یمیت القلب حدیث صحیح ہے؟ جبکہ حضرت مولٰنا خلیل احمد صاحب مدظلہم العالی کی براہین قاطعہ سے جس کوحضرت مولانا گنگوہی رحمتہ اللہ علیہ نے بھی ملاحظہ فرمایا ہے معلوم ہوتا ہے، اگریہی بات ہے توحکیم الامت حضرت مولانا دامت برکاتہم نے امدادالفتاویٰ میں جو ’’طعام المیت یمیت القلب‘‘ کے متعلق تحریر فرمائے ہیں خداجانے کہ کس کا قول صحیح ہے ،: اس کے معنی کیا ہوں گے ، دونوں قولوں میں تطبیق بیان کرکے ممنون فرمادیں، نیزتحریرفرمادیں کہ علماء وفضلاء کوایسی ضیافت میں شریک ہوکرکھانا کیساہے، اوران کی شرکت میں کیا خرابی ہے ، اگرحنفی مذہب کی چندمعتبرکتابوں کے حوالہ سے یہ مسئلہ حل ہوجائے توبہت اچھا ہے ، بہت لوگ ہدایت یاب ہوں گے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

    قال فی غنیة المستملی ص 565ویکرہ اتخاذ الضیافة من اهل المیت لانه شرع فی السرور لافی الحزن قالوا وهی بدعة مستقبحةلماروی الامام احمدوابن ماجة باسناد صحیح عن جریر بن عبدالله قالوا کنا نعد الاجتماع الیٰ اهل المیت وصنعهم الطعام من النیاحة ويستحب لجیران المیت واقربائه الاباعد تهیئةطعام لهم لقوله علیه السلام اصنعوا لاٰل جعفرطعاماً فقدجاء هم مايشتغلهم حسنه الترمذی وصححه الحاکم ولانه برمعروف ویستحب ان یلح علیهم فی الاکل لان الحزن یمنعهم من ذلک فیضعفون۔ ذکرہ کله ابن الهمام وفی فتاوی البزازیه ویکرہ اتخاذ الطعام فی الیوم الاول والثالث وبعدالاسبوع ونقل الطعام الی القبر فی المواسم واتخاذ الدعوۃ بقراء ۃ القراٰن وجمع الصلحاء للختم اولقراء ۃ سورۃ الانعام اوالاخلاص، والحاصل ان اتخاذ الطعام عندقرائة القراٰن للاکل یکرہ، وفیها فی کتاب الاستحسان وان اتخذطعاماً للفقراء کان حسناً انتهیٰ، ولایخلوعن نظرلانه لادلیل علی الکراهةالاحدیث جریربن عبدالله المتقدم وانما یدل علی کراهة وذلک عندالموت فقط علیٰ انه قدعارضه ما رواہ الحاکم واحمد بسندصحیح وابوداؤد عن عاصم بن کلیب عن ابیه عن رجل من الانصار قال خرجنامع رسول الله ا فی جنازة فرأیت رسول الله ﷺ ا یوصی الحافر یقول اوسع من قبل راسه اوسع من رجله فلماء رجع استقبله داعی امرأته فجاء وجیٔ بالطعام فوضع بین یدیه ووضع (بین یدی) القوم فاکلوا ورسول الله ا یلوک لقمة فی فیه ثم قال انی اجدہ لحم شاۃ اخذت بغیر اذن اهلهافارسلت: المرأۃ تقول یارسول الله انی ارسلت الی البقیع اشتری شاۃ فلم اجد فارسلت الیٰ جارلی قداشتری شاۃ ان یرسل الی بثمنها فلم یوجدفارسلت الیٰ امرأته فارسلت بهاالی فقال علیه السلام اطعمیه الاساری اھ قال الشامی وبحث هنا شارع المنیة فذکرہ ملخصاً الیٰ ان قال اقول فیه نظرفانه واقعة حال لاعموم لهامع احتمال سبب خاص بخلاف مافی حدیث جریر، علی انه بحث فی المنقول فی مذهبناومذهب غیرنا کالشافعیة والحنابلة استدلالاً بحیث جریر المذکور علی الکراهة ولاسیمااذا کان فی الورثة صغاراوغائب مع قطع النظر عمایحصل عندذلک غالباً من المنکرات الکثیرۃ کایقاد الشموع والقنادیل التی لاتوجد… فی الافراح وکدق الطبول والغناء بالاصوات الحسان واجتماع النساء والمردان واخذالاجرۃ علی الذکروقرأۃ القراٰن وغیرذلک مماهومشاهدفی هذہ الازمان وماکان کذلک فلاشک فی حرمته وبطلان الوصیه به ولاحول ولاقوۃ الابالله العلی العظیم اھ ص۹۴۰ و۹۴۱ ج ۱

ان عبارات سے امورذیل مستفادہوئے:

۱۔ مذہب حنفیہ میں کسی کے مرنے کے بعداولیاء میت کایوم موت یا سوئم اور ہفتہ وعشرہ وغیرہ میں کھانا پکانا اور عام لوگوں کوکھلانا مکروہ ہے (اور اطلاق کی وجہ سے کراہت تحریمیہ مراد ہے، نیز علت کا مقتضا ہی یہی ہے، لان العلة حدیث جریر وعدذلک فیه من النیاحة وهی حرام۱۲)

۲۔ شامی کے قول سے معلوم ہواکہ مذہب شافعیہ وحنابلہ میں بھی اس کی کراہت مصرح ہے،

۳۔دلیل کراہت حدیث جریر بن عبداللہ ہے جس میں اس ضیافت کونیاحت میں داخل کیاگیا ہے اور وہ حدیث ہے۔

۴۔ شارح منیہ نے جو اس دلیل کراہت کویوم الموت کے ساتھ خاص کیاہے، اور دوسری حدیث سے اس کا معارضہ کیا یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ وہ حدیث قولی نہیں ہے بلکہ فعلی ہے جوواقعہ خاص ہونے کی وجہ سے وجوہ مختلفہ کومحتمل ہے اور حدیث جریر قولی ہے جو حکماً مرفوع ہے پس وہ مقدم ہے اور حدیث جریر سے مذہب حنفیہ، شافعیہ، حنابلہ میں استدلال کرکے اس ضیافت کومکروہ کہاگیا ہے ، پس ان اجلہ ائمہ کے سامنے شارح منیہ کی بحث قبول نہیں ہوسکتی

طعام المیت یمیت القلب کاحدیث ہونا ہمیں ثابت نہیں ہوا اور براہین قاطعہ میں بھی اس کی بحث نہیں ملی، صفحہ وبحث کا حوالہ لکھیں تو دیکھاجائے، میرے نزدیک اس وقت تک حضرت حکیم الامت کا قول راجح ہے، ولعل الله  یحدث بعدذلک امراوالله اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved