• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

میراث کے مکان کو فروخت کرنا

استفتاء

میرے والد صاحب کے تین (3) بیٹے اور پانچ (5) بیٹیاں  ہیں ۔ والدہ کا انتقال 1971ء میں ہوگیا تھا۔ اس کے دوتین سال بعد والد صاحب نے دوسری شادی ایک ایسی  خاتون سے کرلی جو  1970ء میں ہندوستان سے اپنے بچوں سمیت اپنے بھائیوں اور والدہ  سے ملنے کراچی آئی اور پھر واپس نہ گئی ان کا شوہر نہ صرف زندہ تھا بلکہ  واپسی کا منتظر بھی تھا  اور اس نے ان کو طلاق بھی نہ دی تھی۔  موجودہ والدہ کے پہلے شوہر سے چار بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔ اس وقت تمام لڑکے شادی شدہ اور علیحدہ مقیم ہیں جبکہ  مرحوم کےسب  سے چھوٹے بیٹےG  (تفصیل آگے ہے) کے نکاح میں ہے اور ان دوسری والدہ کی ہمارے مرحوم والد صاحب سے کوئی اولاد نہ ہے ۔ ترتیب کچھ یوں ہے  کہ سب سے بڑی ایک بیٹی A(جواب بیوہ ہے ) اس کے بعد ایک بیٹا  B پھر متواتر تین بیٹیاں C.D.E (ان  میںD بیوہ ہے ) اس کے بعد دو بیٹےF.G  (ان میںF   راقم ہے ) پھر ایک بیٹیH ہے ۔ یہ تمام بچے شادی شدہ ہیں ۔ والد صاحب کا انتقال  1996 میں ہوچکاہے   اور بڑے بیٹے  Bکا انتقال والدصاحب سے دوسال قبل  1994 ء میں ہوچکاہے۔

1992 میں والد صاحب نے ایک رہائشی قطعہ زمین مختار نامہ پر خریدا (اس  وقت  قانون  یہ تھا کہ تعمیر مکمل ہونے سے پہلے الاٹی فروخت نہیں کرسکتا)جس پر چاردیواری  اورایک چھوٹا سا کمرہ بنا ہواتھا اس مکان کو قابل  رہائش بنایا اور  1963 میں اس میں منتقل ہوگئے ۔ میرے والد ایک مزدور آدمی تھے سفید پوشی اور سادگی سے زندگی  گزارنے والے انتہائی عبادت گزار جو کچھ محنت مزدوری سے حاصل ہوتا مکان پرلگا  دیتے اور انتہائی سست روی سے تعمیر ہوتی رہی ۔ محکمے کے قانون کے مطابق تعمیر مکمل ہونے پر 1972 میں جب  مالکانہ حقوق کے لیے درخواست دی تو حسب روایت  محکمے نے لیت ولعل سے کام لینا شروع کیا مقصد صرف یہ تھا کہ رشوت دی جائے جس کو والد صاھب نے قبول نہ کیا اور ان کے قانونی تقاضے پورےکرتے ہوئے عدالت میں  مقدمہ دائر کردا۔ تقریباً بیس سال  مقدمہ چلتاہرا اور 1996 میں والد صاحب نے زندگی کی بازی ہاردی اور اپنے خالق حقیقی  سے جاملے مگر مکان کے مالکانہ حقوق حاصل نہ کرسکے۔ راقم نو اپنی تعلیم سے  1976ء میں فارغ ہوچکا تھا اور گھر میں واحد تعلیم یافتہ ہونے کی وجہ سےوالد صاحب کا  ہر شعبہ میں معاون تھا (F ان کی زندگی میں ساری بھاگ دوڑ کرتارہا اور ان کے انتقا ل کے بعد عدالت میں یہ درخواست دی کہ جائیداد مذکورہ میں سائل کے علاوہ مندرہ بالا تمام لوگ وارث ہیں) اس مقدمے کو آگے چلانے کی کوشش کی مگر بدگمانیوں ،الزام ترشیوں اور بہتان  تراشیوں کی وجہ سے (جس میں بنیادی کردارB  کی بیوہ  کاتھا) دلبرداشتہ ہو کر مقدمہ کی پیروی  سے  دست بردار ہوگیا اور اپنے چھوٹے بھائی  Gکو اپنا مختار بنادیا مگر ناتجربہ کاری اور وکیل کی نا اہلی کی وجہ سے مقدمہ ہار  دیا۔(یاد رہے کہ اس مکان میں  Bکی بیوہ ، راقم  FاورG  اپنے اپنے بچوں کے ساتھ مقیم ہیں ) کافی  عرصہ اپنی صفائی  حالات کی نزاکت اور اپنی  قانونی پوزیش کی وضاحت کرتے رہے مگر  کوئی  نتیجہ برآمد نہ ہوا۔ آخر کا  ر 2007 میں محکمے  نے یہ مکان کسی دوسرے کے نام الاٹ کردیا۔F  اور Gنے وکیل کیا اور حکم امتناعی حاصل  کیا مگر وکیل کی بھاری فیس اور عدالتوں کے خراجات کا تمام بوجھ راقم FاورG کے کاندھوں پر آن پڑا جس کے لیے نہ تو کوئی بہن تعاون کرنے کے لیے  تیار ہے نہ ہیB  کی بیوہ (بلکہ  بیوہB  نے تو عدالت میں یہ درخواست دی کہ مکان اس کے مرحوم شوہر نے اپنی کمائی سے بنایا تھا اس لیے  اس اس کے بچوں کے علاوہ کسی اور کا حق ہی نہ ہے  جس سے مقدمے کی نوعیت اور خراب ہوگئی ہے )۔ اس وقت صوت حال یہ ہے کہ اگر اس مقدمہ کو لڑاگیا تو لاکھوں روپے کے علاوہ جانی اور ایمانی طور پر بھی پسنا پڑے گا جس کی نہ تو ہمت ہے  نہ ہی وقت ہے ۔ مالی لحاظ سے ہم دونوں بھائی بہت کمزور ہوچکے  ہیں   اپنے بچے  جو ان  ہوچکے ہیں  جن کی کفالت  ہی مشکل ہے۔

کافی پریشانی کے بعد کچھ احباب سے جب اس سلسلے میں مشورہ کیا گیا تو معلوم ہواکہ کئی خریدار اس متنازع جائیداد  کو اصل سے کم قیمت پر اسی حال میں خریدنے  کو تیار ہیں  محکمے  اور عدالت سے وہ اپنے طور پر نمٹ لیں گے۔ ہمارے پاس صرف یہی  ایک راستہ باقی ہے وہ  ہے  اس کی فروخت کیونکہ مقدمہ کی صورت میں ہمارے  پاس کوئی یقین دہانی نہیں کہ کیا نتیجہ نکلے گا۔ لہذا فوری طور پاس کو  فروخت کردیا جائے اور اگر مندرجہ ذیل درست ہے تو تمام رقم  ہم دونوں  باہم تقسیم کرلیں۔

چونکہ شرعی تقاضے کو پورا نہ کرتے ہوئے دوسرا نکاحکیا اس لیے   والدہ کا نکاح باطل ہے اور وہ بھی وراثت میں حصہ دار نہ ہے۔

جب کوئی شخص اپنے والد کی موجودگی میں  انتقال کرجائے تواس کے ورثاء دادا کی جائیداد میں حصہ دار نہیں بن سکتے۔

چونکہ انتقال  کے وقت  یہ مکان  والد صاحب کے نام نہ تھا اور ابھی  تک بھی نہ ہے اس لیے اس میں بہنیں  بھی حصہ دارنہیں بن سکتی  ویسے بھی اپنے جہیز کی شکل میں وہ حصہ وصول کر چکی ہیں اور سب اپنے اپنے ذاتی گھروں   میں خوشحال ہیں۔

برائے مہربانی  قرآن وحدیث کی روشنی میں رہنمائی  فرمائیں کہ کیا کیا جائے تاکہ اللہ تعالیٰ  شانہ  کی ناراضگی  اور آخرت کے نقصان سے بچا جائے اور موجودہ مسئلہ بھی حل ہوجائے۔

**** زوجہ ش*** مرحوم

امر واقعہ یہ ہے کہ میری شادی ہندوستان میں کرامت اللہ سے ہوئی تھی ۔ میں شادی کے بعد اپنے سسرال جو کہ **کے موضع**میں واقع ہے میرے تمام بچوں کی پیدائش وہاں کی ہی ہے۔ بڑی بیٹی کی شادی بھی میں نے میرٹھ  میں ہی کی جو کہ اب  بھی وہیں مقیم ہے۔ میراشوہر** تھا۔ شروع میں تو وہ ٹھیک رہا لیکن بعد میں اس نے نشہ کرنا شروع کردیا۔ ہر وقت گھر میں پڑا رہتا اور مجھے مارتا پیٹتا رہتا اور بچوں کو کہتا کہ کماکرلاؤ۔ بچوں کی کمائی اتنی نہ تھی کہ سات آدمیوں کا کنبہ کھا سکتا الغرض اکثر گھر مین تنگی رہتی جس  سے میں   بہت پریشان تھی ۔ میری والدہ اور تمام بہن بھائی ہجرت کرکے  پاکستان  آچکے تھے کوئی بھی اس پریشانی میں میری مدد کرنے والانہ تھا۔ میرے تمام بھائی کراچی میں رہتے ہیں سب کے اپنے کاروبار اپنے اپنے ذاتی  گھر ہیں اور والدہ  بھی ان کے ساتھ ہی رہتی تھیں جن کو یاد کرکے میں اکثر رویا کرتی ۔ میں کافی عرضہ رقم پس اندازکرتی رہی تاکہ مرنے سے پہلے ماں کی شکل دیکھ لوں۔ آخرکار غالباً1970 میں اپنے بچوں  سمیت کراچی آگئی۔ جب یہاں آکر وہاں کی تفصیل عرض کی تو میرے بھائیوں نے طے کرلیا کہ اب واپس  مت جاؤ۔ انہوں نے ہمارے پاسپورٹ پر روانگی  لکھوائی اور ہمارے نام تبدیل (پہلے میرانام***) کرکے کراچی کے دوسرے سرے پر مکان لیکر دے دیا اور ہم وہاں منتقل ہوگئے۔ 1970 کے آخر میں ملکی حالات تبدیل ہوگئے آخر دونوں ملکوں کی جنگ  شروع ہوگئی  جس سے واپسی کے تمام راستے مسدود ہوگئے۔

***(میرے دوسرے شوہر) کی تین بھابھیاں جو آپس  میں سگی  بہنیں ہیں اور میری سگی  خالہ  ذاد بھی ہیں  انہوں نے میرے بھائیوں سے میرے رشتے  کی بات کی جس  پر میرے  بھائیوں نے مولانا احتشام الحق تھانوی  سے مندرجہ بالاحالات  سنا کر اس بات کا فتویٰ لیا کہ عملی طور پر اب کسی طور بھی ہندوستان  واپسی ممکن نہیں لہذا دوسرا نکاح کردیا جائے۔

مزید وضاحت: امید ہے  مزاج بخیریت ہونگے اللہ جل شانہ آپ حضرات کو اپنی حفظ وامان  میں رکھے اور ہمارے تمام دینی مراکز کی خصوصی حفاظت فرمائے اور آپ حضرات کی اس مساعی   جمیلہ کو اپنی جناب میں بہت قبول فرمائے جو آپ امت کی رہنمائی  کی صورت میں کررہے ہیں۔

محترم امیدہے میری مورخہ  29اپریل کی درخواست موصول ہوچکی ہوگی معافی کا خواستگارہوں چند مزید تفاصیل حاضر ہیں جن سے جناب کو مزید رہنمائی مل جائے گی۔

1۔اس کے پہلے پیرے میں ایک غلطی  ہوگئی ہے جس کی وجہ سے بات میں ایک ابہام ساتھا اس کی تصحیح کرکے دوبارہ پیش خدمت ہے۔

2۔جائیداد مذکورہ مختارنامہ پر خریدی گئی اس کی نوعیت کیا ہے اس کو سمجھنے کے لیے مختارنامہ کی کاپی ساتھ لف ہے۔

3۔والد/والدہ کا دوسرا نکاح کے محرکات کیا تھے یا یہ کہ ان کی دیندار ی کے باوجود اس نکاح کو باقی رکھنے کی کیا وجوہات تھیں؟ ان کے بارے میں کوئی حتمی بات اس لیے بھی  نہیں  بتائی جاسکتی کہ والد کے وہ دوست جو ہمارے پڑوسی ہونے کے علاوہ ایک عالم  دین (مولانا صدرالدین الرفاعی) بھی تھے انتقال فرماچکے ہیں ان سے اکثر مشورہ فرمایا  کرتے تھے بلکہ ہم تمام بہن بھائیوں کا نکاح بھی مولانا  نے پڑھایا تھا اور میرے دوچچا جواس کار خیر می خاصے سرگرم تھے وہ بھی اس جہان فانی سے رخصت ہوچکے ہیں۔ والد کا اللہ جل شانہ  کے یہاں کیا مقام  ہوگا ہمارے لیے تو قابل فخر ان کی موت ہے کہ رمضان المبارک کے آخری عشرے کے اعتکاف  کے دوران  ساری رات عبادت کے بعد جمعة الوداع کے روز اشراق کے وقت  نماز جمعہ کی تیاری کا غسل اپنے  ہاتھوں کرکے بضد سفید لباس زیب تن  کرکے مسجد  کے صحن  میں دوگانہ ادافرمائی اور قبلہ رو لیٹ کراپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ سردست والدہ جو ذہنی اور جسمانی طور پر کافی ضعیف ہوچکی ہیں ان  کا بیان جوان کی یاداشت  میں محفوط ہے سپرد قلم کردیا ہے اور ان کے دستخط بھی کروادیئے ہیں (نقل ساتھ لف ہے)۔ باقی اللہ تعالیٰ شانہ سے اپنے لیے بھی توبہ کرتاہوں اور اپنے بڑوں کے لیے بھی معافی مانگتاہوں  آپ سے بھی دعاؤں کی خصوصی درخواست ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

فروخت کرسکتے ہیں۔ اور اصولی طور پر آپ دونوں بھائیوں کے ساتھ آپ کی بہنیں بھی حقدار ہیں۔ ا س کے  علاوہ آپ کے والد کی زندگی میں وفات پاجانے والے  بیٹے کی بیوہ اور اولاد  اور دوسری بیوہ نکاح کے درست نہ ہونے کی وجہ سے شرعاً وارث نہیں ہیں۔

وفي الدر: هل إرث الحی من الحی أم من الميت المعتمد الثاني (5/ 535)

وفي الشاميه : أما نكاح منكوحة الغير ومعتدته  فالدخول فيه لايوجب العدة إن علم أنها للغير لأنه لم يقل  أحد بجوازه  اصلاًفلم ينعقد اصلاً (5 / 780)

وفي الدر: ويستحق الإرث برحم ونكاح صحيح فلا توارث بفاسد ولا باطل اجماعاً ۔(5 / 538) فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved