• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

خدا اور اس کے رسول کے احکامات کو مدنظر رکھتے ہوئے مذکوریہ کو طلاق دیتاہے

استفتاء

کہ آج سے پندرہ ، سولہ سال پہلے میری بیوی گھر چھوڑ کر چلی گئی ۔ اور چار سال تک اپنے والدین کے گھر بیٹھی رہی۔ میرے دوبچے تھے۔ ایک لڑکا اور ایک لڑکی۔

ہم نے اس دوران فیصلہ کیا کہ اب اسے طلاق دے دینی چاہیے۔ لڑکی والوں نے کہا کہ ہمیں نمونے بناکر بھیجو۔ اس میں میں نے اس کو لفظ طلاق (ایک دفعہ) کا لکھ کر دیا لیکن نیت یہ کی کہ جب تک دستخط نہ کردوں گا، طلاق نہ ہوگی، اور میں نے دستخط نہیں کئے ۔ اس کے کچھ سال بعد صلح صفائی ہوگئی اور وہ گھر واپس آگئی ۔ اور پھر دوبارہ نکاح نہیں کیا۔ اب عرصہ تین سال سے وہ پھر گھر چلی گئی بچوں کو ساتھ لے کر۔ بیٹے کی عمر اب سترہ سال ہے اور بیٹی کی عمر سولہ سال ہے۔ اب تین سال انتظار کرنے کے بعد میں نے اس کو طلاق نہ دستخط کرکے بھیج دیئے اور نیت یہ کی کہ ایک طلاق دی ہے۔ اب بچے ضد کررہے ہیں کہ دوبارہ دوستی کرلیں۔ تو پوچھنا یہ تھا کہ ایک طلاق ہوئی تو کتنے عرصہ بعد تک رجوع کیا جاسکتاہے۔ بغیر نکاح کے۔ اور اگر وہ پیئریڈ ختم ہوجائے تو اس کے بعد نکاح کرکے رجوع کیا جاسکتاہے۔ اور کیا بچوں کا خرچہ میرے ذمہ تو نہیں۔

وضاحت: پہلے مرتبہ جو نمونہ لکھ کر تیار کیا تھا۔ اس میں بیوی کا نام لکھاتھا اوراپنے بچوں کے خرچے کی تفصیل بھی لکھی تھی کہ طلاق کے بعد بچوں کو کتنا خرچہ ملے گا۔

طلاق نامہ

من کہ *** ولد خلیفہ *** کاہوں۔***کی شادی ہمراہ مسماة *** کو ہوئی تھی۔ ہمارے دو بچے پیداہوئے ۔شادی کے فورا بعد میری بیوی کا رویہ درست نہ رہتاتھا۔ آئے دن گھرمیں کوئی نہ کوئی جھگڑا کھڑارہتاتھا۔ میں نے اس کو بہت سمجھانے کی کوشش کی، مگر وہ ہٹ دھرمی پر قائم رہی۔ اور ہمیشہ طلاق کا مطالبہ کرتی رہی۔ بالآخر وہ مورخہ جولائی2005 کو ہمراہ نابالغان من مقر کی عدم موجودگی میں قیمتی سامان ،زیوروغیرہ لے کر اپنے والدین کے پاس چلی گئی ۔ ***نے بہت کوشش کی کہ وہ گھر آباد ہو، مگر وہ اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہی، اور طلاق لینے پر بضد ہے۔  لہذا *** کی خواہش پر خدا اور رسول کے احکامات کو مدنظر رکھتےہوئے مذکوریہ کو طلاق دیتاہے۔ اور اپنی زوجیت سے علیحدہ کرتاہے۔ اب مذکوریہ کو حق حاصل ہے کہ وہ بعد ایام عدت جہاں چاہے اپنا نکاح ثانی کرے۔*** کو کوئی عذرنہ ہوگا۔ 

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔مذکورہ صورت میں ایک طلاق بائنہ واقع ہوگئی ہے۔ اور نکاح ختم ہوگیاہے، میاں بیوی چاہیں تو دوبارہ نکاح کرکے آپس میں اکٹھے رہ سکتےہیں۔

2۔بچی کا خرچہ شادی نہ ہونے تک والد کے ذمہ ہے۔ بچہ اگر خود نہیں کما سکتاتو بچہ کا خرچہ بھی والد کے ذمہ ہے۔

ونفقة الإناث واجبة على الأباء مالم يتزوجن إذالم يكن لهن مال … ولاتجب على الأب نفقة الذكور الكبار إلا أن يكون الولد عاجزا عن الكسب لزمانة أو مرض ومن يقدر على العمل لكن لايحسن العمل فهو بمنزلة العاجز.(عالمگیری، ص: 563، ج:1)

3۔لڑکی کی شادی اس کی رضامندی کے بغیر درست نہیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔مذکورہ صورت میں پہلی طلاق واقع نہیں ہوئی اور اب ایک طلاق بائن واقع ہوئی لہذا نکاح کی تجدید کرکے اکٹھے رہ سکتے ہیں۔

ولا یحتاج إلى النية في المستبين المرسوم ولا يصدق في القضاء أنه عنى تجربة الخط .بحر. ومفهومه أنه يصدق ديانة في المرسوم۔( شامی، ص: 242 ج:4)

2۔بچی کی جب تک شادی نہ ہوئی ہو تو خرچہ والد کے ذمہ ہے اور بچہ اگر خود نہیں کماسکتا تو بچہ کا خرچہ بھی والد کے ذمہ ہے۔

ونفقة الإناث واجبة على الأباء مالم يتزوجن إذالم يكن لهن مال … و لا تجب على الأب نفقة الذكور الكبار إلا أن يكون الولد عاجزا عن الكسب لزمانة أو مرض ومن يقدر على العمل لكن لايحسن العمل فهو بمنزلة العاجز. ( عالمگیری، ص: 563، ج:1)

3۔لڑکی کی شادی اس کی رضامندی کے بغیر درست نہیں۔

لايجوز نكاح أحد على بالغة صحيحة العقل من أب أو سلطان بغير إذنها. ( عالمگیری 1/ 287 )

طلاقنامہ کا نمونہ جو شوہرخودلکھے بھی طلاق نامہ ہی ہوتاہےکیونکہ

(i) یہ نمونہ عورت کے پاس بھی پہنچاہوگا اور عورت اس کو طلاق ہی شمار کرے گی۔

(ii)شوہر نے اس کو اسٹامپ پیپر پر لکھا ہے ورنہ نمونہ توسادے کاغذ پرلکھاجاتاہے۔

(iii) شوہر کاخیال ہے کہ طلاق اس وقت ہوگی جب وہ اس پر دستخط کرے گا۔ گویا اس نے طلاقنامہ ہی لکھا ہے لیکن وہ اس کی نظر میں غیر موثر ہے۔لہذا شوہر کی نیت معتبر نہ ہوگی۔

غرض ایک طلاق بائن واقع ہوئی اور دوسری نہ ہوئی۔ دوبارہ نکاح کرنا ہوگا۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved