- فتوی نمبر: 3-171
- تاریخ: 25 مارچ 2010
- عنوانات: اہم سوالات
استفتاء
السلام علیکم کے بعد عرض یہ ہے کہ میری شادی 2006۔4۔6 میں ہوئی۔ شادی کے دو ماہ بعد میں نے اپنی بیوی کو کہا” کہ میں تمہیں طلاق دیتاہوں” اس میں میری نیت یہ تھی کہ میری والدہ کو یہ دلی نہ پسند تھی ۔ میں نے اس لیے اس سے کہا کہ یہاں اس کے ساتھ ہمیشہ ایسا ہی برتاؤ ہونا ہے ،کیوں نہ اس کی جان چھوٹے اور میرے ماں باپ کی اور میری بھی۔ کبھی وہ حرکتیں ہی ایسی کرتی ، کہ اس سے جان چھڑوانے کے لیے میں کہتا "کہ تم یہاں سے چلی جاؤ "اس میں بھی نیت یہی ہوتی ہے کہ جا ن چھوٹے یعنی یہ یہاں سے چلی جائے شام کو لڑائی ہوتی تورات کو ہم اکٹھے سوتے ،اکٹھے کھاتے پیتے ہم بستری کرتے، کبھی میں اپنی والدہ والد سے کہتاکہ اس سے میری جان چھڑواؤ اور اس کا جونکاح میں جو لکھا ہے اسے دو اور جان چھوٹے۔
پھردوچار گھنٹے بعد پھر اکٹھے رہتے ،کھاتے ،سوتے اور ہم بستری کرتے ، ایسی صورت حال کتنی دفعہ پیش آئی کہ صبح کو لڑائی ہوتی تو میں کہتاکہ میری اس سے جان چھوٹے یہ دیہاتی لڑکی نہ بات مانتی نہ بات کواپنے ذہن میں بٹھاتی ہے، میں کیسے اس کے ساتھ زندگی گزاروں گا۔ کبھی میں والدین کو کہتایہ کیا میرے پلے ڈال دی کہ اس کے پاس نہ کوئی دنیاوی تعلیم ہے ، یہ کیسے میرے بچوں کی پرورش کرے گی، کتنی دفعہ تقریبا تین سے چار دفعہ خود میں اسے دوازے تک لے گیارات کو اور کہا سب سوگئے ہیں تم چلی جاؤ یعنی بھاگ جاؤ،لیکن اسے میں زبان سے کہتا دل سے نہیں کہتاتھا۔
دودفعہ میں نے جیسا شروع میں لکھا ہے کہ کہا میں تمہیں طلاق طلاق دیتاہوں” اس میں نیت زیادہ تر یہ تھی کہ کسی پرظلم ہوتاہو توظلم دیکھنے والا یہی کہتاہے کہ اس کی یہاں سے جان چھوٹے ، یہ یہاں سے چلی جائے۔ کتنی دفعہ یہ میرے گلے پڑجاتی جیسا مرد ہاتھا پائی ہوتے ہیں ، تو میں یہی سوچتاکہ اس سے میری جان چھوٹے ، تو میں یہی کہتا کہ ” تم یہاں سے چلی جاؤ” صبح یہ واقعہ پیش آیا ،رات کوہم اکٹھے کھاتے ، سوتے ہم بستری کرتے۔ لڑائی جب بھی ؛ہوئی زیادہ تر میں جان چھڑوانے کے لیے کہتا ، اس سےمیری جان چھوٹے ، اس طرح لڑائی جوہوتی ہے کتنی دفعہ ہوئی سمجھ لے کہ دس سے پندرہ دفعہ چار سال میں بلکہ زیادہ دفعہ کہا ہوگا۔ یہ بول جو میں کہتا بیوی سے زیادہ تنہائی میں جب ہم دونوں اکٹھے ہوتے میں اس سے یہ بھی کہتاکہ تم چلی جاؤ اور کسی اور سے شادی کر لینا اور دل میں یہ خیال کرتا یہ کہاں جائے گی اور زبان سے کہتا چلی جاؤ۔ میری اپنی پھوپھی کی بیٹی سے منگنی ہوئی ہوتی تو شادی اس سے ہوجاتی، کبھی میں اسے تنگ کرنے کے لیے اس کا نام لیتا تو کبھی یہ سوچتا اگر یہ چلی گئی تو اس سے شادی کرلوں گا۔ لیکن اس سے زیادہ محبت تھی ۔ پس پھر ہم اکٹھے سوتے ہم بستری کرتے، ایک دفعہ میں نے اپنی بڑی بہن سے کہا کہ یہ تو سیدھی نہیں ہونے والی فون پربات کی ، کہ میرے لیے اپنے شہر میں کوئی رشتہ ڈھونڈو۔ اس نے مجھے بہت پریشان کررکھاتھا۔ کبھی میں سوچتا اس سےجان چھوٹے اور کبھی پھر اکٹھے ہوجاتے کھاتے ،ہم بستری کرتے، اب میں بہت پریشان ہوں 2010۔3۔28 سے میں اب تک 2010۔3۔11 تک ان سے ہم بستری نہیں کی۔ اگر طلاق ہوگئی ہے تو حلالہ کروانا ہے ۔ اس کے لیے تفصیل سے لکھ کربتائے 2010۔3۔31 کو ان کو حیض آیاتھا۔ شادی کے دو سال دوماہ بعدمیرا بیٹاپیدا ہوا جو سترہ ماہ ہوکر انتقال کرگیا، شادی کے تین سال اور پانچ ماہ بعد دوسرا بیٹا پیدا ہوا جو اب چھ ماہ کا ہوگیا ہے۔ یہ بھی بتائے یہ دونوں بیٹے میرے ہی ہوں گے؟
بیوی کہتی ہے کہ ہماری طلاق نہیں ہوئی ہم لڑتے ہیں اور دوچار گھنٹے اکٹھے کھاتے ،سوتے، ہم بستری کرتےہیں۔ لیکن میں کہتاہوں جب تک مکمل طور پر یقین نہ ہوجائے۔ میں نہ تمہیں ہاتھ لگاؤں گا نہ ہم بستری کروں گا۔ لیکن وہ نہیں مانتی وہ مجھے چھوتی ہے کبھی میرا ہاتھ منہ کو لگاتی ہے اور میں دور دور رہنے کی کوشش کرتاہوں ،آپ اب فرمائیں اور جلد سے رہنمائی فرمائیں۔ فقط والسلام
تنقیح: تیسری خط کشیدہ عبارت کب کی ہے؟ اور یہ کیا علیحدہ سے جملے بولےتھے یا پہلے والے جملے کی ہی تفصیل ہے؟
جواب: یہ علیحدہ نہیں بولے تھے ،بلکہ جو پہلی دفعہ کہا ہے وہ دراصل میں نے دومرتبہ ہی کہا تھا، یہ وہی بات ہے دوبارہ کہنے کی نہیں ہے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں بظاہر دوطلاقیں رجعی بنتی ہیں ،لیکن چونکہ جان چھڑاؤ کے الفاظ اتنی کثرت سےاستعمال کیے ہیں کہ گمان غالب ہے کہ طلاق کے وقت بھی کہے ہونگے جن کی وجہ سے رجعی طلاقیں بائنہ ہونگی۔ چنانچہ اب اگر میاں بیوی دوبارہ اکٹھے رہنا چاہیں تو نئے مہر کے ساتھ نیا نکاح ضروری ہوگا۔ اور یاد رہے کہ اس کے بعد خاوند کے پاس صرف ایک طلاق کا حق باقی رہ جائے گا۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved