• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

میں طلاق دے رہاہوں

استفتاء

ایک شخص نے اپنی بیوی کے متعلق اپنی ساس کو کہا” میں طلاق دے رہاں آپ اس کو گھر لے جاؤ” یہ جملہ چار ،پانچ مرتبہ کہا۔ اس کے بعداپنے عزیز واقارب کو کہا میں نے طلاق دیدی  ہے یہ اقرار بھی چار،پانچ مرتبہ کیا۔

اب کہتاہے میرا ارادہ ڈرانے دھمکانے کا تھا طلاق دینے کا ارادہ  قطعاً نہیں تھا۔ اس صورت میں طلاق ہوئی یا نہیں ہوئی؟

یہاں کے کچھ علماء کا کہنا ہے کہ مذکورہ صورت میں چونکہ” میں طلاق دے رہاہوں” کے الفاظ حال اور استقبال دونوں کے محتمل ہیں اور شوہر کی طلاق دینے کی نیت نیں ہے صرف ڈرانے دھمکانے کی نیت ہے اس لیے اگر شوہر اپنی اس نیت پر قسم اٹھالے تواس کی نیت کا اعتبار ہوگا اور طلاق واقع نہ ہوگی۔ جبکہ دوسرے کچھ علماء کا کہنا ہے کہ یہ الفاظ غالب الاستعمال فی الحال ہیں اس لیے ان سے تینوں طلاقیں واقع ہوجائیں گی۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

” میں طلاق دے رہاہوں” کالفظ اردو زبان اورہمارے عرف میں اصالتہً حال جاری کے لیے مستعمل ہے ،اگرچہ کبھی کبھار مجازاً مستقبل قریب پر بھی بول دیا جاتاہے ،مثلاً یوں کہے کہ میں فلاں کو کتاب دے رہاہوں جبکہ ابھی کتاب اٹھائی اوردینے کے لیے جارہاہو۔ اسی طرح کوئی پوچھے کہ تم کیا کررہے ہوتو جواب میں کہے کہ میں اس کوطلاق دے رہاہوں جبکہ طلاق دینے کو طے کرکے اس کے بارے میں بات شروع کردی ہو یا کرنے لگا ہو۔ورنہ اس صیغہ کی اصل وضع صرف حال کے لیے ہے۔

مضارع کا صیغہ جو کہ حال واستقبال دونوں کے لیے موضوع ہے اگر غالب الاستعمال فی الحال ہوتا ہو اس سے بھی طلاق ہوجاتی ہے تو جو صیغہ اصالتہً حال کے لیے موضوع ہے اور اس کا اکثری وحقیقی استعمال حال ہی کے لیے ہوتا ہے تو اس سے  توبدرجہ اولیٰ طلاق واقع ہوجائے گی۔ خصوصاً جبکہ مذکورہ صورت میں تو شوہر ارادہ استقبال کا مدعی نہیں ہے۔ نیز شوہر کا اقرارکرنا اور ” طلاق دے رہاہوں” کے بعد یہ کہنا کہ ” آپ اس کو گھر لے جاؤ” ایقاع طلاق فی الحال پر دلیل اور قرینہ بھی ہے۔ اس لیے مذکورہ صورت میں تینوں طلاقیں واقع ہوگئیں۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved