• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

دکان اور اس میں موجود سرمایہ کی تقسیم

استفتاء

میرے والد صاحب بیس جون 2012 کو انتقال پاچکے ہیں۔ ان کے وارثیں میں ہم دو بھائی اور ایک بہن ہیں۔ جبکہ ان کی کل جائیداد ایک مکان اور ایک دکان ہیں۔ مکان میں ہم دونوں بھائی رہتے ہیں۔ نیچے کے حصے میں میرا چھوٹا بھائی رہتا ہے اور اوپر کے حصے میں میں رہتا ہوں۔ چھوٹے بھائی نے نیچے کا آدھا گھر کرایہ پر دیا ہوا ہے۔ دکان میں میرے والد کے شراکت دار میرے والد کے شراکت دار میرے چچا بھی تھے۔ یعنی آدھی آمدنی والد صاحب اور آدھی آمدنی چچا کی۔ میں دکان پر اپنے والد کے ساتھ عرصہ ستائیس سال سے کام کر رہا ہوں۔ اور میرے ساتھ چچا کے بیٹے بھی کام کرتے ہیں۔ دکان سے ہم دونوں ایک مقررہ تنخواہ لیتے ہیں۔ پہلے یہ آمدنی چار لوگوں میں تقسیم ہوتی تھی۔ اب جبکہ میرے والد اور چچا انتقال کرچکے ہیں۔ تو یہ آمدنی دو حصوں یعنی میرے چچا کے بیٹے اور میں لیتے ہیں۔ جو مقرر ہے۔ میرے چھوٹے بھائی اس دکان پر کام نہیں کرتے ان کا کام الگ ہے اور گھر کا کرایہ بھی وہ لیتے ہیں۔ جبکہ میں دکان سے تنخواہ کے طور پر جو رقم لیتا ہوں اس میں سے اپنے گھر کا خرچ بھی چلاتا ہوں اور چھوٹے بھائی کے گھر کے تمام بل ( گیس، بجلی، پانی اور ٹیلی فون) اور اپنے بل بھی سب اسی تنخواہ سے ادا کرتا ہوں۔ میرا بھائی اپنے بل خود ادا نہیں کرتا۔ کیا یہ جائز اور اس کا شرعی حق ہے؟ برائے مہربانی اس سلسلے میں شرعی حکم کیا ہے۔ چھوٹے بھائی کہتے ہیں جو پیسے ابا یعنی والد صاحب لیتے تھے وہ میرا حق ہے جبکہ وہ دکان پر کام بھی نہیں کرتے۔ مجھے یہ بھی معلوم کرنا ہے کہ جو وفات پاچکا ہے کیا اس کے مرنے کے بعد بھی اس کی تنخواہ نکلتی ہے؟ اس کے علاوہ میرے چھوٹے بھائی ہر مہینے دکان سے تقریبا دو ہزار روپے نقد بھی لے لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ میرا دکان کی وراثت میں شرعی حق ہے۔ ان سب باتوں کے بارے میں مجھے آپ سے معلوم کرنا ہے کہ مجھے کیا کرنا چاہیے اور شرعی احکام کیا ہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں آپ کو چاہیے کہ پہلے اپنے والد صاحب کی تمام جائیداد کو تقسیم کریں اور پھر ہر کوئی اپنے اخراجات خود برداشت کرے۔ تقسیم کا طریقہ کار یہ ہے کہ کل ترکے جس میں مکان، دکان اور دکان میں موجود سرمایہ دونوں شامل ہیں ان کو 5 حصوں میں تقسیم کیا جائے جس میں سے ایک حصہ آپ بہن کا ہے اور دو دو حصے آپ دونوں بھائیوں کے ہیں۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved