• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

عورت کے نماز پڑھنے کا مستحب وقت

استفتاء

کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ عورتوں کے لیے فرض نماز پڑھنے کا مستحب اور بہتر وقت وہی ہے جو مردوں کے لیے ہے؟ یا کہ عورتوں کے لیے افضل اور بہتر یہ ہے کہ وہ نماز کا وقت داخل ہوتے ہی فرض نماز ادا کریں۔ کیونکہ انہوں نے جماعت میں تو شرکت کرنی نہیں ہے؟

1۔ مندرجہ ذیل بعض عبارات سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں کے لیے وقت داخل ہوتے ہی نماز ادا کرنا افضل اور بہتر ہے:

i۔  مولانا تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

’’ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ اول وقت میں نماز پڑھنے سے اللہ تعالیٰ کی خوشی ہوتی ہے۔ ’’ف‘‘ بیبیو! تم کو جماعت میں جانا تو ہے نہیں، پھر کیوں دیر کیا کرتی ہو۔‘‘ (اصلی بہشتی زیور: 557)

ii۔ آپ کے مسائل اور ان کا حل میں ہے:

’’وقت ہو جانے کے بعد خواتین کے لیے اول وقت میں نماز پڑھنا افضل ہے۔ ان کو اذان کا انتظار ضروری نہیں۔‘‘ (2/ 299)

2۔ جبکہ مندرجہ ذیل عبارات سے لگتا ہے کہ عورتوں کے لیے بھی فرض نماز ادا کرنے کا مستحب وقت وہی ہے جو مردوں کے لیے ہے:

i۔  عمدۃ الفقہ میں ہے:

’’عورتوں کے لیے ہمیشہ فجر کی نماز اول وقت میں مستحب ہے، اور باقی نمازوں میں بہتر یہ ہے کہ مردوں کی جماعت کا انتظار کریں، جب جماعت ہو چکے تب پڑھیں۔ (2/ 19- 18)

ii۔ آپ کے مسائل اور ان کے حل میں ہے:

’’فجر کی نماز عورتوں کو اول وقت میں پڑھنا افضل ہے، اور دوسری نمازیں مسجد کی جماعت کے بعد پڑھنا افضل ہے۔‘‘ (2/ 301)

سوال یہ ہے کہ ان میں سے کونسی بات صحیح ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

فقہ حنفی کی رُو سے دوسری بات صحیح ہے۔ البتہ اس میں یہ تفصیل ہے کہ فجر کی نماز میں تو عورتوں کے لیے بہتر یہ ہے کہ وہ اول وقت میں پڑھیں۔ یعنی وقت داخل ہونے کے بعد جتنی جلدی ہو سکے فجر کی نماز پڑھ لیں۔ جبکہ دیگر نمازوں میں افضل یہ ہے کہ مسجد میں مردوں کی جماعت ہو جانے کے بعد پڑھیں۔

فتح الباری میں ہے:

أبو الوليد هشام بن عبد الملك قال حدثنا شعبة قال أبو الوليد بن العيزار أخبرني قال: سمعت أبا عمرو الشيباني يقول: حدثنا صاحب هذه الدار و أشار إلى عبد الله قال: سئلت النبي صلى الله عليه و سلم أي العمل أحب إلى الله؟ قال: الصلاة على وقتها.

قال ابن بطال فيه: إن البدار إلى الصلاة في أول أوقاتها أفضل من التراخي فيها، لأنه إنما شرط فيها أن تكون أحب الأعمال إذا أقيمت لوقتها المستحب. (2/ 191)

معارف السنن میں ہے:

عن القاسم بن غنام عن عمته أم فروة و كانت ممن بايع النبي صلى الله عليه و سلم قالت: سئل النبي صلى الله عليه و سلم أي الأعمال أفضل؟ قال: الصلاة لأول وقتها …. و المراد بأول الوقت عند الحنفية أول وقت كان رسول الله صلى الله عليه و سلم يعتاد فيه الصلاة فلا يتأخر عنه. …. و أيضاً التعجيل عند الحنفية أداء الصلاة في النصف الأول من وقتها كما حكاه صاحب البحر. (2/ 84- 86)

فتاوٰی شامی:

نعم ذكر شراح الهداية و غيرهم في باب التيمم أن أداء الصلاة في أول الوقت أفضل … و لهذا كان أولى للنساء أن يصلين في أول الوقت لأنهن لا يخرجن إلى الجماعة.(2/ 31)

البحر الرائق میں ہے:

و إذا لم يكن له رجاء و طمع فلا فائدة في الانتظار و أداء الصلاة في أول الوقت أفضل، إلا إذا تضمن التأخير فضيلة لا تحصل بدونه كتكثير الجماعة و لا يتأتى هذا في حق من في المفازة، فكان التعجيل أولى و لهذا كان أولى للنساء أن يصلين في أول الوقت لأنهن لا يخرجن إلى الجماعة. (1/ 271)

نوٹ: ’’اول وقت‘‘ سے مراد مستحب وقت  ہے۔

سعایہ میں ہے:

فحاصل كلامهم أن أداء العبادات في أول الوقت المستحب المعهود أفضل لغير راجي الماء و التأخير عن أوله إلى آخر الوقت المستحب أفضل لراجيه. (1/ 552)

البحر الرائق میں ہے:

و الذي في مبسوط شمس الأئمة إنما هو إذا كان لا يرجوا الماء فلا يؤخر الصلاة عن وقتها المعهود أي عن وقت الاستحباب و هو أول النصف الأخير من الوقت في الصلاة التي يستحب تأخيرها، أما إذا كان يرجوا فالمستحب تأخيرها عن هذا الوقت المستحب و هذا هو مراد من قال بعدم استحباب التأخير إذا كان لا يرجوا، و ليس المراد بالتعجيل … في أول وقت الجواز حتى يلزم أن يكون أفضل و يدل على ما قلنا ما ذكره الإسبيجابي في شرح مختصر الطحاوي بقوله: و إن لم يكن على طمع من وجود الماء فإنه يتمم و يصلي في وقت مستحب و لم يقل يصلي في أول الوقت. (1/ 272) ………………… فقط و الله تعالى أعلم

نوٹ: فقہ حنفی میں عورتوں کے لیے فجر کے علاوہ دیگر نمازوں میں جو حکم بیان کیا گیا ہے باوجود تلاش کے اس کی علت نہیں مل سکی۔ لہذا علت کے لحاظ سے یہ مسئلہ قابل غور مسائل میں سے ہے۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved