• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

عین قبلہ سے 10 ، 11 درجے کے انحراف سے بنی مسجد میں نماز اور اس فرق کو ختم کرنے کا حکم

استفتاء

کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ

1984 میں ہماری مسجد کی بنیاد رکھی گئی اب 16۔3۔23 کو کمپاس کی مدد سے اس کا قبلہ چیک کیا گیا تو وہ 10 سے 11 ڈگری تک کا فرق نکلا ۔ اب  اگر اس فرق کو ختم کر کے قبلے کو بالکل درست کیا جائے تو مسجد کی 4 صفیں کم ہو جاتی ہیں جسکی وجہ سے جمعہ اور عیدین میں نمازیوں کے لیے خاصی جگہ کم ہو جاتی ہے ۔ نیز مسجد میں بھی اختلاف و انتشار کی فضا بن رہی ہے کہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ قبلہ کو درست کرنا ضروری ہے چاہے صفیں کم ہی پڑ جائیں اور کچھ کہتے ہیں کہ اسی طرح نماز پڑھتے رہیں تاکہ لوگوں کیلیے زیادہ سے زیادہ نماز پڑھنے کی جگہ رہے اس تفصیل کے پیش نظر سوال یہ ہے کہ کیا پہلے سے بنے ہوئے قبلہ کے مطابق نماز پڑھتے رہیں یعنی جس طرح ہماری مسجد بنی ہوئی ہے یا اس 10 سے 11 ڈگری کے فرق کو ختم کرنا ضروری ہے

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

جو شخص بیت اللہ شریف کے سامنے ہو یعنی بیت اللہ اسے نظر آ رہا ہو تو ایسے شخص کے لیے نماز میں عین کعبہ کی طرف رُخ کرنا ضروری ہے اور جو شخص بیت اللہ سے غائب ہو یعنی وہ بیت اللہ سے دور ہو اور دور ہونے کی وجہ سے بیت اللہ اس کی نظر کے سامنے نہ ہو تو اس کے لیے نماز میں عین کعبہ کی طرف رُخ کرنا ضروری نہیں بلکہ سمت قبلہ کی طرف رُخ کرنا کافی ہے۔

جو ممالک بیت اللہ سے جانب مشرق میں واقع ہیں مثلاً ہندوستان و پاکستان وغیرہ ان کے لیے سمت قبلہ سمت مغرب ہے۔ لہذا ان ممالک کے لوگوں کے لیے نماز میں سمت مغرب کی طرف رُخ کر لینا کافی ہے۔

قواعد ریاضیہ کے اعتبار سے عین کعبہ سے 45 درجے دائیں طرف اور 45 درجے بائیں طرف سمت مغرب باقی رہتی ہے۔ لہذا مذکور صورت میں چونکہ عین کعبہ سے انحراف صرف 10، 11 درجے تک ہے جو کہ نا قابل التفافت ہے، اس لیے اس صورت میں نماز درست ہونے میں کچھ شبہ نہیں۔ اور اس فرق کو ختم کرنا ضروری نہیں۔ اس  مسئلے کی پوری تفصیل حضرت مولانا مفتی شفیع صاحب رحمہ اللہ کے رسالہ ’’سمت قبلہ‘‘ مندرجہ ’’جواہر الفقہ‘‘ میں ہے۔

الدر المختار (2/ 135- 136) میں ہے:

فللمكي إصابة عينها و لغيره إصابة جهتها بأن يبقى شيء من سطح الوجه مسامتاً للكعبة أو لهوائها، بأن يفرض من تلقاء وجه مستقبلها حقيقة في بعض البلاد خط على زاوية قائمة إلى الأفق

ماراً على الكعبة و خط آخر يقطعه على زاويتين قائمتين يمنة و يسرة.

رد المحتار (2/ 138) میں ہے:

و سيأتي في المتن في مفسدات الصلاة أنها تفسد بتحويل صدره عن القبلة بغير عذر فعلم أن الانحراف اليسير لا يضر و هو الذي يبقى معه الوجه أو شيء من جوانبه مسامتاً لعين الكعبة أو لهوائها بأن يخرج الخط من الوجه أو من بعض جوانبه و يمر على الكعبة أو هوائها مستقيماً و لا يلزم أن يكون الخط الخارج على استقامة خارجاً من جهة المصلي بل منها أو من جوانبها.

بدائع الصنائع (1/ 308) میں ہے::

و إن كان نائياً عن الكعبة غائباً عنها يجب عليه التوجه إلى جهتها … لا إلى عينها. فقط و الله تعالى أعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved