- فتوی نمبر: 18-195
- تاریخ: 21 مئی 2024
- عنوانات: مالی معاملات > خرید و فروخت
استفتاء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
جنگ، ایکسپریس ،خبریں، نوائےوقت وغیرہ اخبارات منگوانا ،دفتروں، گھروں میں لگوانا کیسا ہے؟ جبکہ ان سب میں بے ہودہ فلمی اشتہارات تقریبا ننگی خواتین فلمی اداکارہ ماڈلز کی تصویریں ہوتی ہیں (جبکہ روزنامہ اسلام بھی موجود ہو) ڈبل فلموں کے اشتہارات بھی ہوتے ہیں۔ بعض اوقات تصاویر دیکھ کر بھی اشتعال پیدا ہو جاتا ہے کیا ایسی چیزیں خریدنے میں رقم مثلا 650 روپے ماہوار دینا جائز ہیں؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
اخبارات میں اصل مقصد تصاویر نہیں ہوتیں بلکہ وہ خبروں کے ضمن میں ہوتی ہیں۔اس لیے مذکورہ اخبارات کی خرید و فروخت جائز ہے ۔البتہ خواتین کی تصاویر کو قصدًا دیکھنا اور دیگر تصاویر کو تلذذ کی غرض سے دیکھنا ناجائز ہے تاہم جس کے لیے خواتین کی تصاویر کو قصدًا دیکھنے سے بچنا دشوار ہو تو اسے احتیاط کرنی چاہیے۔
کفایت المفتی(۹/۲۳۴)میں ہے:
سوال:بچوں کے کھلونے تصویر والا چھوٹا ہو یا بڑا خواہ کسی شے کا بنا ہوا ہو اس کی خرید و فروخت کا کیا حکم ہے بچوں کا باجا یا بانسری بچوں کی جس میں دور سریعنی باریک اور موٹے ان کی خرید و فروخت کا کیا حکم ہے ؟
جواب ۔تصویروں کا خریدنا بیچنا جائز ہے خواہ وہ چھوٹی ہو یا بڑی اور بچوں کے کھیلنے کی ہوں یا اور کسی غرض کے لیے البتہ ایسی اشیاء جن میں تصویر بیچنا خریدنا مقصود نہ ہو جیسے دیا سلائی کے بکس کہ ان پر تصویر بنی ہوتی ہے مگر تصویر کی بیع و شراء مقصود نہیں ہوتی تو ایسی چیزوں کا خریدنا بیچنا مباح ہو سکتا ہے باجے وغیرہ جن میں تصویر نہ ہو بچوں کے کھیلنے کے لیے خریدنا اور ان کا بیچنا مباح ہے۔
کفایت المفتی(۹/۲۳۴)میں ہے:
سوال:بچوں کے کھلونے تصویر والا چھوٹا ہو یا بڑا خواہ کسی شے کا بنا ہوا ہو اس کی خرید و فروخت کا کیا حکم ہے بچوں کا باجا یا بانسری بچوں کی جس میں دو سریعنی باریک اور موٹے ان کی خرید و فروخت کا کیا حکم ہے ؟
جواب ۔تصویروں کا خریدنا بیچنا ناجائز ہے خواہ وہ چھوٹی ہوں یا بڑی اور بچوں کے کھیلنے کی ہوں یا اور کسی غرض کے لیے البتہ ایسی اشیاء جن میں تصویرکا بیچنا خریدنا مقصود نہ ہو جیسے دیا سلائی کے بکس کہ ان پر تصویر بنی ہوتی ہے مگر تصویر کی بیع و شراء مقصود نہیں ہوتی تو ایسی چیزوں کا خریدنا بیچنا مباح ہو سکتا ہے ۔
کفایت المفتی (۹/۲۴۲)میں ہے:
سوال:ایک مسلمان نے بیڑی جاری کی اور اس کے لیبل پر ایک عرب کی تصویر بنائی جس کو دیکھ کر مسلمان اپنی دل آزاری سمجھتے ہیں چنانچہ اس مسلمان بیڑی بنانے والے سے کہا گیا کہ ہمارے مذہب میں تصویر منع ہے اگر تیرا مقصد بیڑی کی تجارت ہی ہے تو اس دل آزار لیبل کو بند کر کے اور کوئی دوسرا لیبل نکال لے اور لیبل کے بند کرنے پر جو بقیہ لیبل کی لاگت کا نقصان ہے وہ ہم ادا کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن باوجود اس کے وہ لیبل بند نہیں کرتا اور بدستور جاری رکھتا ہے ایسی صورت میں اس لیبل کے بنانے والے بیچنے والے اور خریدنے والوں کے متعلق شریعت مقدسہ کیا حکم رکھتی ہے؟
الجواب :تصویر بنانا حرام ہے مگر افسوس کے ساتھ دیکھا جاتا ہے کہ ہزاروں مسلمانوں نے اپنے تجارتی نشانات میں تصویریں بنائی ہیں اور ان تصویروں کو ٹریڈ مارک کے طور پر استعمال کرتے ہیں اگر کوئی مسلمان ان ٹریڈ مارکوں کی تصویروں کو موقوف کرانے کے لیے کوئی اقدام خلوص کے ساتھ کرے تو یہ اس کے لیے موجب اجر ہوگا مگر اس میں کسی ایک مارکہ کو اعتراض کے لیے خاص کر لینا خلوص کی دلیل نہیں ہے ایسے مارکے جن پرتصویریں بنی ہوتی ہیں سینکڑوں روزمرہ کی استعمال کی اشیاء یا پر موجود ہیں ہاتھی مارکہ، کاغذ، دیا سلائی کی ڈبیا اور کپڑے کے تھان ،چینی کے برتن، اخبارات و رسائل اور ہزاروں چیزیں ہیں ان کی خریداری کا حکم یہ ہے کہ اگر تصویر کی خریداری مقصود نہ ہو اور تصویر کو اس چیز کی قیمت میں دخل نہ ہو یعنی خود تصویر کی کوئی قیمت اس میں شامل نہ ہو تو ایسی چیزوں کا خریدنا مباح ہے۔
کفایت المفتی (9/241) میں ہے:
سوال۲۔کپڑے کے تھان کہ جس پر کارخانہ کے رجسٹرو چھاپ کا لیبل چسپاں ہوتا ہے جو جاندار کی تصویر ہو یا بکس کہ جس پرتصویر جاندار ہو اس میں اشیاء فروخت بند ہوتی ہیں ا س کا دکان میں رکھنا تصویر رکھنے کے حکم میں ہوگا یا نہیں عام طور پر لوگ اس میں مبتلا ہیں چونکہ یورپ کی بنی ہوئی اشیا پر اکثر تصویر دار لیبل چسپاں ہوتے ہیں اس سے احتراز دشوار امر ہے تو اس کے لئے شریعت مطہرہ کا کیا حکم ہے؟
جواب۲۔اس میں چونکہ تصویرکی میں بیع وشراء مقصود نہیں ہوتی اس لئے ضرورتاًگنجائش ہے۔
سوال۳:انگریزی اخبار کی جن میں جابجا تصویریں ہوتی ہیں اور اس دیار میں عام طور پر تاجروں کو اخبار بینی لازم ہوتی ہے کہ اس سے نرخ اشیاء معلوم ہوتی ہے اسی طرح کیلنڈر تاریخ دیکھنے کے جو یورپین تاجروں کے یہاں سے جدید سال کی تقریب میں اپنے گاہکوں کو تقسیم ہوتے ہیں اور اس پر جاندار کی تصویر نصف یا پوری ہو تو اس کو مکان میں رکھنے کا کیا حکم ہے؟
جواب۳:اس کا حکم بھی نمبر2 کا ہے کہ ضرورۃً ان اخبارات کا خریدنا جائز ہے کیونکہ تصاویر کی بیع و شراء مقصود نہیں ہوتی۔
کفایت المفتی (9/238)میں ہے:
اخباروں کے اندر جو فوٹو ہوتے ہیں اور مکان میں وہ اخبار رکھے رہتے ہیں ایسے فوٹو کا مکان کے اندر رہنا کیسا ہے ؟
جواب۔فوٹو اورتصویریں قصداً مکان میں رکھنا حرام ہے اور بلا قصد کسی اخبار یا کتاب میں رہ جائے تو یہ حرام نہیں مگر مکروہ یہ بھی ہے۔
فتاوٰی رحیمیہ (9/205)میں ہے:
رسائل مجلات ،اخبارات میں لوگوں کی تصاویر شائع ہوتی ہیں جیسے آج کل لیڈران ہند کی تو آیا ان کادیکھنا اور خریدنا از روئے شرع درست ہے یا نہیں؟
(الجواب) جن کا مقصد صرف مضامین ہے ان کی نظر اگر اتفاقاً تصاویر پر پڑ جائے تو معافی کی امید ہے اور جن کامقصد ہی تصویر دیکھنا ہو تو یہ قابل مواخذہ ہو سکتا ہے خاص کر عورتوں کی تصویریں کہ جن میں بعض عریاں و نیم عریاں تصویر ہوں۔فقط واللہ اعلم بالصواب
امداد الفتاوٰی (4/160)میں ہے:
جو شخص مفاسد سے بچ سکے اس کو تحصیل مصالح کے لیے اخبار بینی جائز ہے،ورنہ مفاسد سے بچنا اہم ہے جلب مصالح سے۔
فتاوٰی محمودیہ( 24/413)میں ہے:
سوال:۔ اردو،ہندی اخبارات ورسائل جن میں ہرقسم کی فحش وغیر فحش تصاویر سنیماؤں کے اشتہاربعض مخرب اخلاق مضامین ،رومانی واقعات وغیرہ خلاف شرع امور ہواکرتے ہیں ،اورتقریباً کوئی اخبار ان خلاف شرع امور سے خالی نہیں ہوتا ایسے اخبار کی ایجنسی مسلمانوں کو لینا کیساہے؟ جب کہ اکثرمسلمان لڑکے یہاں یہ کاروبار کرتے ہیں ؟
الجواب: اخبارات رسائل میں کارآمد ومفید مضامین بھی ہوتے ہیں اس لئے سب کی خرید وفروخت کوناجائز نہیں کہا جائے گا،جو مضامین لکھنے والے ہیں خدائے پاک ان کو ہدایت دے کہ وہ مفید مضامین لکھاکریں اور دیکھنے والوں کو ہدایت دے کہ مخرب اخلاق مضامین سے پرہیز رکھیں اوربرے اثرات قبول نہ کریں۔ فقط واللہ سبحانہ تعالیٰ اعلم
جواہر الفقہ (6/510)میں ہے:
جو اخبار ان مذہبی گناہوں اور دینی و دنیوی مفاسد سے خالی ہوں یا جو اخبار بین حضرات ان مفاسد سے بچ سکیں ،ان کے لیے اخبار نویسی اور اخبار بینی کو ناجائز نہیں کہا جا سکتا ،مگر چونکہ عام طور پر ان مفاسد سے بچنا سخت دشوار تھا اس لیے عوام کو یہی مشورہ دیا گیا تھا کہ وہ بلا ضرورت اخبار بینی سے اجتناب کریں۔
جواہر الفقہ( 7/263)میں ہے:
بیع و شراء میں اگر تصاویر خود مقصود نہ ہوں بلکہ دوسری چیزوں کے تابع ہو کر آ جائیں جیسے اکثر کپڑوں میں مورتیں لگی ہوتی ہیں یا برتنوں اور دوسری مصنوعات جدیدہ میں اس کا رواج عام ہے تو اس کی خریدوفروخت تبعا جائز ہے۔
كما يستفاد من بلوغ القصد والمرام معزيا للهيثمي (بلوغ ١٨)ولما هو من القواعد المسلمة من فقه الاحناف ان كثيرا من الافعال لا يجوز قصدا ويجوز تبعا كما صرحوا في جواز بيع الحقوق تبعا للدار ولا اصالة وقصدا.
جواہر الفقہ (7/262)میں ہے:
تصویریں اگر کسی غلاف یا تھیلی وغیرہ میں پوشیدہ ہوں یا کسی ڈبہ وغیرہ میں بند ہوں تو اس تھیلی یا ڈبہ وغیرہ کا گھر میں رکھنا جائز ہے اور ملائکۃ رحمت کے دخول سے مانع نہیں ،اگرچہ بنا نااور خریدنا ان کا بھی ناجائز ہے ۔
لما في مكروهات الصلوة من رد المحتار عن البحر اذاكان فوق الثوب الذي فيه صورة ثوب ساتر له فلا تكره الصلوة فيه لاستتارها بالثوب وفيه ايضا و في المعراج امامة من في يده تصاوير لانها مستورة بالثياب لا تستبين فصارت كصورة نقش خاتم.انتهي
مسئلہ:عبارات مرقومہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر تصویریں کسی کتاب یا رسالہ یا اخبار کے اوراق میں مستور ہوں تو ان کا گھر میں رکھنا بھی جائز ہے ۔رہا یہ امر کی ایسی کتاب اور رسالہ کا دیکھنا بھی جائز ہے یا نہیں ؟ اس کا حکم آگے آتا ہے۔
جواہر الفقہ (7/264)میں ہے:
جن تصاویر کا بنانا اور گھر میں رکھنا نا جائز ہے ان کا ارادہ اور قصد کے ساتھ دیکھنا بھی ناجائز ہے البتہ تبعاً بلا قصد نظر پڑ جائے تو مضائقہ نہیں ،جیسے کوئی اخبار یا کتاب مصور ہے ،مقصود اس کا مضمون دیکھنا ہے ،بلا ارادہ تصویر بھی سامنے آجاتی ہے ،اس کا مضائقہ نہیں۔
آپ کے مسائل اور ان کا حل( 8/462)میں ہے:
سوال… میں گورنمنٹ کالج میں بطور لیکچرار اسلامیات کام کرتا ہوں، حالاتِ حاضرہ اور جدید دِینی اور علمی تحقیقات اور معلومات سے باخبر رہنا ہماری ضرورت ہے، جس کا عام معروف اور سہل الحصول ذریعہ اخبارات ہیں، لیکن اِشکال یہ ہے کہ اخبارات میں تصویریں ہوتی ہیں۔ حدیث پاک کی رُو سے تصاویر کا گھروں میں لانا جائز نہیں، اس صورت میں مجھے کیا کرنا چاہئے؟ اپنے قیمتی مشورے سے نوازیں۔
جواب… بعض اکابر کا معمول تو یہ تھا کہ اخبار پڑھنے سے پہلے تصویریں مٹادیا کرتے تھے، بعض تصویروں پر ہاتھ رکھ لیتے تھے، ہم ایسے لوگوں کے لئے یہ بھی غنیمت ہے کہ اخبار پڑھ کر تصویریں بند کرکے رکھ دیں
© Copyright 2024, All Rights Reserved