- فتوی نمبر: 18-165
- تاریخ: 21 مئی 2024
- عنوانات: مالی معاملات > خرید و فروخت
استفتاء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عرض ہے کہ ایک مسئلہ کے بارے میں قرآن و سنت اور فقہ حنفی کی روشنی میں وضاحت فرما کر عنداللہ ماجور ہوں ایک سولہ مرلہ کاپلاٹ گلزار احمد نے عبدالستار کو فروخت کیا ،رجسٹری کروا دی مگر انتقال نہیں کروایا، پھر غلط طریقے سے گلزاراحمد نے یہ پلاٹ دوبارہ چند ماہ بعد جاوید اقبال کو فروخت کردیا، رجسٹری اور انتقال بھی کروا دیا ،جاوید اقبال نے چند سال بعد آگے محمد اسلم ولد محمد صدیق اور منظور احمدولد غلام حیدر کو فروخت کردیا ،رجسٹری اور انتقال کروادیا، پھر 16 سال بعد منظور احمد اور محمد اسلم دونوں سے یہ پلاٹ ہم دو بھائیوں احسن ارشد اور حسام ارشد نے خرید لیا، انہوں نے بھی ہمیں رجسٹری اور انتقال کروادیا۔
اب 17 سال بعد گلزار احمد (بائع اول) کےمشتری اول عبدالستار(جس کو گلزاراحمد نے صرف رجسٹری کروا کر دی تھی، انتقال نہیں کروا کر دیا تھا) نے عدالت میں کیس کرکے مشتری ثانی جاویداقبال ومشتری ثالث منظور احمد اور محمد اسلم اور مشتری رابع احسن ارشد ،حسام ارشدکی رجسٹری اور انتقال سب کینسل کروا دیئے ،کیونکہ اس کی رجسٹری ہماری رجسٹری سے پہلے کی تھی اور عدالت سے منظور شدہ تھی، اس لئے عدالت نے بعد والی سب رجسٹری کینسل کردیں دریں حالات ہم نے گلزاراحمد کی تلاش شروع کردی ،جس کا کچھ پتہ نہ چلا کہ وہ کہاں ہے، ہم نے اپنے بائع سے رابطہ کیا، اس نے بھی یہ کہہ کر معذرت کر لی کہ میرا اس میں کوئی قصور ہوتو میں ہر جانے کے لیے تیار ہوں ،مجبورا ہم نے مدعی عبدالستار سے رابطہ کیا تو اس نے ہم سے پلاٹ کی پوری قیمت کا مطالبہ کردیا کہ اگر آپ رجسٹری انتقال کروانا چاہتے ہیں تو موجودہ پوری رقم دینی ہوگی، کیوں کہ قبضہ ہمارے پاس تھا تو بات چلتے چلتے مبلغ پینتیس لاکھ میں بات طے ہوگئی، ہم نے یہ رقم عبدالستار کو دے کر اس سے دوبارہ رجسٹری اور انتقال کروالیا۔ اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ یہ رقم پینتیس لاکھ روپیہ ہمارے ذمے ہے یا ہمارے بھائی منظور احمد اور محمد اسلم کے ذمے؟ کیونکہ ان کی طرف سے جو ہم نے پہلی رجسٹری کروائی تھی جس کو عدالت نے کینسل کردیا تھا اس میں درج تھا کہ پلاٹ مذکورہ بالا ہرقسم کی زیر بار یوں سے مبرا /پاک صاف ہے، اگر کسی نقص قانونی کی نقص ملکیت کی وجہ سے مشتری کے زر ثمن کا کوئی نقصان ہوا تو من مظہر بائع کی ذات خاص و دیگر جائداد منقولہ و غیر منقولہ مشتری مذکور کے ہرجہ و خرچہ کی ذمہ داری ہوگی، اب کاغذات کو درست کروانا تو ان کی ذمہ داری تھی جس کو انہوں نے قبول نہیں کیا۔ اب یہ جرمانہ 35لاکھ روپے منظور احمد اور محمد اسلم کو ہونا چاہیے؟
امید ہے کہ آپ شریعت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں گے محمد حسام ارشد محمد احسن ارشد
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں سائل( یعنی احسن ارشد اورحسام ارشد) کو حق حاصل ہے کہ وہ منظور احمد اور محمد اسلم سے اس مکان کی جو قیمت انہوں نے ادا کی تھی وہ واپس لیں اور وہ دونوں (منظور احمد اور محمد اسلم)گلزاراحمد سےاپنے دیے ہوئے پیسے واپس لے لیں ، یہ تو اصولی بات ہے البتہ چونکہ گلزاراحمد کا علم نہیں ہے، اس لیے احسن ارشد ، حسام ارشد اور منظور احمد ،محمد اسلم آپس میں کسی رقم پر صلح کرلیں تو یہ بہتر ہے۔
نوٹ مذکورہ صورت نہ تو فضولی کی بنتی ہے، کیونکہ بائع نے وہ مکان اپنا کہہ کر بیچا تھا اور 35لاکھ اصل مالک کو ادا کرنے کی وجہ سے سائل کا رجوع کا حق بھی ختم نہیں ہوگا۔
شرح المجلة:2/455
الاستحقاق۔۔۔۔ وهو نوعان مبطل للملک بالکلیة ای بحیث لا یبقی لاحد علیه حق التملک کالحریة الاصلیة والعتق وتوابعه وناقل له من شخص الی آخر کالاستحقاق بالملک بان ادعی زید علی بکر ان ما فی یدہ من العبد ملک له وبرهن …….والثانی وهو الناقل لا یوجب فسخ العقد علی الظاهر لانه لا یوجب بطلان الملک بل یبقی العقد موقوفا بعدہ علی اجازۃ المستحق او فسخه علی الصحیح فاذا فسخه صریحا فلاشک ینفسخ وکذا لورجع المشتری علی بایعه الثمن وسلمه الیه لانه رضی بالفسخ وکذا لو طلب المشتری من القاضی ان یحکم علی البایع بدفع الثمن فحکم له بذلک او تراضیا علی الفسخ ففی ذلک کله ینفسخ العقد فلا یقبل الاجازۃ بعدہ من المستحق ثم انه یثبت لآخر الباعة الرجوع علی بائعه بالثمن وان کان قد دفع الثمن الی المشتری بلا الزام القاضی وکذا بایعه له الرجوع علی بائعه هکذا والحکم بالملک للمستحق حکم علی ذی الید وعلی من تلقی ذو الید الملک منهه
درمختار (7/449)
الاستحقاق نوعان……والحکم به حکم علي ذي اليد وعلي من تلقي ذواليد الملک منه
…ولايرجع احد من المشترين علي بائعه ماله يرجع عليه …ويثبت رجوع المشتري علي بائعه بالثمن اذا کان الاستحقاق بالبينة…..
شامی 453/7
وهذا بخلاف العکس وهو مااذا دفع المشتري الي المستحق شيئا وامسک المبيع لانه صار مشتريا من المستحق فلايبطل حق رجوعه کما علمت
© Copyright 2024, All Rights Reserved