- فتوی نمبر: 18-56
- تاریخ: 21 مئی 2024
- عنوانات: مالی معاملات > خرید و فروخت
استفتاء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں مفتیان حضرات اس مسئلہ کے بارے میں زید اور عمر سعودی عرب میں کام کرتے ہیں، زید کواپنےگھر جو کہ پاکستان میں ہے پیسوں کی ضرورت پڑی ،زید نے عمر کو کہا کہ میں آپ کو ایک ہزار ریال دیتا ہوں ،جس کی قیمت چالیس ہزار پاکستانی روپے بنتی ہے اور آپ 38ہزار پاکستانی روپے میرے گھر پہنچا دو، عمر نے اپنے بھائی کو فون کیا کہ زید کے گھر38ہزارروپے پہنچا دو اور اس نے ایسا ہی کیا۔ عمر کا دو ہزار منافع لینا جائز ہے یا نہیں؟ نیز ریال کبھی اس مجلس میں دے دیتے ہیں اور کبھی نہیں دیتے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
جس صورت میں زید معاملہ کرتے ہوئے اسی مجلس میں ریال عمر کو دے دیتا ہے وہ صورت جائز ہے اور جس صورت میں زید ریال اسی مجلس میں نہیں دیتا وہ صورت نا جائز ہے۔
توجیہ: مذکورہ صورت دومختلف ملکوں کی کرنسی کی بیع( خریدوفروخت) کی بنتی ہے کہ زید ایک ہزار ریال عمر کو 38 ہزار روپے میں بیچ دیتا ہے اور روپوں کی ادائیگی پاکستان میں زید کے وکیل کو ہوتی ہے اور بیع میں فریقین آپس میں جو چاہے قیمت طے کر سکتے ہیں، البتہ یہ ضروری ہے کہ احد البدلین پر عقد کی مجلس میں ہی قبضہ ہو جائے تاکہ بیع الکالی بالکالی( یعنی ادھار کی ادھار سےبیع) لازم نہ آئے،لہذا جس صورت میں ریال پر مجلس عقد میں قبضہ نہیں ہوتا وہ صورت بیع الکالی بالکالی کی بن جائے گی اور شرعاً ممنوع ہوگی۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved