• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

ننگے سر نماز پڑھنے سے متعلق چند سوالات

  • فتوی نمبر: 70-10
  • تاریخ: 12 جولائی 2017

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان دین متین اور علماء مندرجہ ذیل مسائل میں کہ

1۔ اگر کوئی بغیر کسی عذر کے ننگے سر نماز پڑھتا ہے۔

2۔ اگر کسی کے پاس ٹوپی اور کوئی سر ڈھانپنے والی چادر، رومال بھی ہو لیکن سر پر رکھنے سے شرماتا اور عیب سمجھتا ہو۔

3۔ اگر نماز پڑھنے والے کے ساتھ کوئی دوسرا ایسا شخص بھی موجود ہو جس کے پاس ٹوپی، چادر اور رو مال وغیرہ موجود ہو جس سے سر ڈھانپا جا سکتا ہو اور وہ بخوشی دینے کے لیے تیار بھی ہو لیکن اس کے باوجود ننگے سر نماز پڑھنے کو ترجیح دیتا ہو۔

4۔ کوئی شخص اس نیت سے ننگے سر نماز پڑھتا ہے کہ اگر سر پر ٹوپی رکھے یا رومال باندھے تو سر کے بال خراب ہو جائیں گے۔

5۔ کسی کی یہ نیت ہو کہ سر پر ٹوپی رکھنا بے وقوفوں اور بے عقلوں کا کام ہے۔

6۔ اگر کوئی غرور و تکبر کی وجہ سے ننگے سر نماز پڑھتا ہے اور اپنے آپ کو دوسرے افراد سے اعلیٰ تصور کرتا ہو کہ میں منسٹر، سرمایہ دار، آفیسر، ڈاکٹر، ماسٹر اور تعلیم یافتہ ہوں۔

7۔ اگر کوئی سنت نبوی ﷺ کو حقیر سمجھتے ہوئے یہ کہے کہ یہ (ننگے سر نماز پڑھنا) اتنی بات نہیں ہے یعنی ننگے سر نماز ہو جاتی ہے۔

مندرجہ بالا مسئلہ کو دین متین کی روشنی میں واضح کر کے رہنمائی فرمائیں کہ ایسی حالت میں نماز ہو جاتی ہے یا نہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

ننگے سر نماز پڑھنے میں مندرجہ ذیل تفصیل ہے:

1۔ اگر کوئی شخص ننگے سر نماز اس لیے پڑھتا ہے کہ اس کے پاس سر ڈھانپنے کے لیے کوئی ٹوپی یا کپڑا نہیں تو ایسی صورت میں ننگے سر نماز پڑھنا بغیر کسی کراہت کے درست ہے۔

فتاویٰ شامی (2/491) میں ہے:

وأصل الكسل ترك العمل لعدم الإرادة فلو لعدم القدرة فهو العجز.

2۔  ٹوپی یا کپڑا تو دستیاب ہے لیکن ٹوپی یا کپڑا بہت میلا کچیلا ہے یا ٹوپی پلاسٹک کی یا چٹائی کی بنی ہوئی ہے تو ایسی صورت میں بھی ننگے سر نماز پڑھنا مکروہ نہیں۔

فتاویٰ شامی (2/491) میں ہے:

وصلاته في ثياب بذلة … و فسرها في شرح الوقاية بما يلبسه في بيته ولا يذهب به إلى الأكابر و الظاهر أن الكراهة تنزيهية.

3۔ سر ڈھانپنے میں کوئی معقول عذر ہو تو ایسی صورت میں بھی ننگے سر نماز پڑھنا مکروہ نہیں۔

4۔ تواضع اور خشوع کے لیے اگر کوئی شخص ننگے سر نماز  پڑھتا ہے تو یہ مکروہ نہیں بلکہ بعض حضرات کے نزدیک یہ مستحسن ہے۔

فتاویٰ شامی (2/491) میں ہے:

ولا بأس به للتذلل قال في شرح المنية فيه إشارة إلى أن الأولى أن لا يفعله … و تعقبه في الإمداد بما في التجنيس من أنه يستحب له ذلك لأن مبنى الصلاة على الخشوع.

5۔ بغیر عذر کے محض سستی کی وجہ سے اور سرڈھانپنے کی اہمیت نہ ہونے کی وجہ سے ننگے سر نماز پڑھنا مکروہ ہے۔

فتاویٰ شامی (2/491) میں ہے:

وصلاته حاسراً أي كاشفاً رأسه للتكاسل و في الشامية: قوله للتكاسل أي لأجل الكسل بأن استثقل تغطيته ولم يرها أمرا مهما في الصلاة فتركها لذلك ، وهذا معنى قولهم تهاونا بالصلاة وليس معناه الاستخفاف بها والاحتقار لأنه كفر.

6۔ سر ڈھانپنے کے عمل کو خفیف اور حقیر سمجھتے ہوئے ننگے سر نماز پڑھنا کفر کی بات ہے۔ البتہ سر ڈھانپنے کے عمل کو خفیف یا حقیر سمجھنے کا تعلق چونکہ آدمی کی نیت اور ارادے سے ہے اور ہمارے لیے کسی کے  ارادے اور نیت پر اطلاع ممکن نہیں، اس لیے کسی شخص کے ٹوپی نہ اوڑھنے کے عمل کو اس حد تک نہ لے جائیں کہ اس پر کفر کا فتویٰ لگاتے پھریں۔

در مختار مع رد المحتار (2/491) میں ہے:

وأما الإهانة بها فكفر.

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved