- فتوی نمبر: 3-351
- تاریخ: 10 دسمبر 2010
- عنوانات: مالی معاملات > خرید و فروخت
استفتاء
عرض ہے کہ میں زیورات زرگری کا کام کرتاہوں، جس میں سونے کی خرید وفروخت کا سلسلہ بھی ہے اور ہمارے کام میں ادھار بہت ہے۔ بلکہ اب تو کام ہی ادھار پر ہے۔ سونے کے ریٹ بھی تیزی سے کم یا زیادہ ہوتے ہیں۔ معلوم یہ کرنا ہے کہ اگر مارکیٹ کا بھاؤ 45 ہزار روپے تولہ ہے اور دکاندار ایک مہینہ یا کم زیادہ مدت کے لیے ادھار مانگتا ہے تو اگر اس کو 44 ہزار روپے دے دیں نقد اورا یک ماہ بعد ایک تولہ سونا لینا طے کر لیں، کیا یہ صورت شرعاً جائز ہے؟ سونا اور رقم کم زیادہ بھی ہو سکتے ہیں، مثلاً 5 تولہ یا دس تولہ کا لین دین بھی ہوسکتا ہے۔ اگر دس تولہ کی رقم موجودہ 4 لاکھ 50 ہزار روپے بنتی ہے۔ تو 4 لاکھ 40 ہزار روپے دے کر دس تولہ سونا ایک ماہ بعد لینا طے کرلیں۔
یہ یادر ہے کہ کام کے چونکہ مختلف شعبے ہوتے ہیں اس لیے دکاندار کو سونا لے کر دوسری جگہ کام بنوانا ہوتا ہے۔
قرآن و حدیث کی روشنی میں شرعاً صورت تحریر فرما دیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
پیسے پہلے دیکر سونا بعد میں لینا جائز ہے۔ جبکہ سونے کی ادائیگی کی مدت طے ہو۔
باع فلوساً بمثلها أو بدراهم أو بدنانير فإن نقد أحدهما جاز ( و إن تفرقا بلا قبض أحدهما لم يجز ).تنویر الابصار، 433/ 7۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved