- فتوی نمبر: 9-223
- تاریخ: 28 دسمبر 2016
- عنوانات: عبادات
استفتاء
سیدنا ابو امامہ بن سہل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نماز جنازہ میں سنت طریقہ یہ ہے کہ پہلے تکبیر کہی جائے، پھر فاتحہ پڑھی جائے، پھر نبی اکرم ﷺ پر درود اور میت کے لیے دعا کی جائے اس کے بعد سلام (پھیرا جائے)۔
طلحہ بن عبد اللہ بن عوف رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پیچھے نماز جنازہ پڑھی تو آپ نے سورہ فاتحہ پڑھی جائے اور فرمایا: (میں نے یہ اس لیے کیا ہے) تاکہ تم جان لو کہ یہ سنت ہے۔
طلحہ بن عبد اللہ رحمہ اللہ کی ایک روایت میں فاتحہ کے بعد کوئی دوسری سورت پڑھنے کا بھی ذکر ہے۔
معلوم ہوا کہ تکبیر اولیٰ کے بعد سورہ فاتحہ کا پڑھنا سنت ہے۔ سورہ فاتحہ اور کوئی دوسری سورت پڑھ کر امام کو دوسری تکبیر کہنی چاہیے اور پھر نماز والا درود شریف پڑھیں۔ اس کے بعد تیسری تکبیر کہہ کر ان دعاؤں میں سے کوئی دعا پڑھیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
ہماری تحقیق میں غائبانہ نماز جنازہ کسی صحیح صریح حدیث سے ثابت نہیں۔ کیونکہ غائبانہ نماز جنازہ کے بارے میں جو احادیث
ذکر کی جاتی ہیں، ان میں بعض تو وہ احادیث ہیں جن کا غائبانہ نماز جنازہ سے تعلق ہی نہیں، مثلاً قبر پر نماز جنازہ پڑھنے کی روایات۔ کیونکہ قبر میں میت کے موجود ہونے کی وجہ سے یہ غائبانہ نماز جنازہ نہیں۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے چار پائی پر میت کفن وغیرہ میں چھپی ہوئی ہوتی ہے، یہ علیحدہ بات ہے کہ قبر پر نما زجنازہ کن صورتوں میں جائز ہے اور کن صورتوں میں جائز نہیں؟ تاہم یہ غائبانہ نماز جنازہ کی وہ صورت نہیں جس کو حنفیہ ناجائز کہتے ہیں۔
اور بعض وہ احادیث ہیں جن میں غائبانہ نماز جنازہ کا تذکرہ ہے لیکن وہ سند کے اعتبار سے ضعیف ہیں۔ جیسا کہ وہ حدیث جس میں حضرت معاویہ بن معاویہ لیثی پر غائبانہ نماز جنازہ پڑھنے کا ذکر ہے۔ چنانچہ اوجز المسالک میں ہے:
وقد روي أنه -صلى الله عليه وسلم- صلى على معاوية وهو غائب ولكن لا يصح، فإن في إسناده العلاء بن زيد ويقال زيد قال علي بن المديني كان يضع الحديث، رواه محمود بن هلال عن عطاء ابن ميمون عن أنس قال البخاري: لا يتابع عليه……. و أما أحاديث صلاته -صلى الله عليه وسلم- على معاوية بن معاوية الليثي فجاء من طرق لا تخلو عن مقال. (4/218).
(ترجمہ: اور روایت کیا گیا ہے کہ حضور ﷺ نے حضرت معاویہ [بن معاویہ] کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھی، لیکن یہ روایت صحیح نہیں ہے۔ کیونکہ اس حدیث کی سند میں علاء بن زید ہے جن کو زید بھی کہا جاتا تھا، علی بن مدینی کہتے ہیں کہ یہ حدیث گھڑتے تھے۔ محمود بن ہلال نے عطاء بن میمون سے انہوں حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کیا ہے ، امام بخاری فرماتے ہیں ان کا متابع موجود نہیں ۔۔۔ اور رہی وہ احادیث جن میں حضور ﷺ کا حضرت معاویہ بن معاویہ لیثی پر نماز جنازہ پڑھنا ثابت ہے یہ احادیث جن سندوں سے بھی مروی ہیں ان پر کلام کیا گیا ہے۔ )
اور بعض وہ احادیث ہیں جو سند کے اعتبار سے اگرچہ صحیح ہیں جیسا کہ حضرت نجاشی رضی اللہ عنہ پر آپ ﷺ کے نماز جنازہ پڑھنے کی حدیث، لیکن اس حدیث کے بارے میں دیگر روایات سے یہ بات ثابت ہے کہ معجزے کے طور پر حضرت نجاشی رضی اللہ عنہ کی میت کو حضور ﷺ کے سامنے کر دیا گیا تھا۔ چناچہ ابن عباس رضی اللہ عنہ مروی ہے:
قال كشف للنبي -صلى الله عليه وسلم- عن سرير النجاشي حتى رأه وصلى عليه. (عمدة القاري شرح صحيح البخاري: 8/119).
ترجمہ: آپ ﷺ کے سامنے حضرت نجاشی رضی اللہ عنہ کی چارپائی کر دی گئی، یہاں تک کہ آپ ﷺ نے وہ دیکھ لی اور اس پر نماز جنازہ پڑھی۔
صحیح ابن حبان میں ہے:
عن عمران بن حصين -رضي الله عنه- أن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: إن أخاكم النجاشي توفي، فقوموا صلوا عليه، فقام رسول الله -صلى الله عليه وسلم- و صفوا خلفه، فكبر أربعاً وهم لا يظنون إلا أن جنازته بين يديه. (رقم الحديث: 3102)
(ترجمہ: عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ تمہارے بھائی نجاشی کی وفات ہو گئی۔ پس اٹھو اور ان پر نماز جنازہ پڑھو۔ پس حضور ﷺ اٹھے اور صحابہ رضی اللہ عنہم نے آپ کے پیچھے صفیں بنائی ، پس آپ نے چار تکبیرات کہیں، اور صحابہ رضی اللہ عنہم یہی گمان کر رہے تھے کہ حضرت نجاشی کی چار پائی آپ ﷺ کے سامنے ہے)۔
اعلاء السنن میں ابو عوانہ کے حوالے سے ہے:
من طريق أبان وغيره عن يحيى: فصلينا خلفه ونحن لا نرى إلا أن الجنازة قدامنا. (8/286)
(ترجمہ: حضرت ابان کی سند سے حضرت یحیٰ سے روایت ہے [ صحابہ فرماتے ہیں] کہ ہم نے آپ ﷺ کے پیچھے (حضرت نجاشی رضی اللہ عنہ) کی نماز جنازہ پڑھی، ہم تو یہی سمجھ رہے تھے کہ حضرت نجاشی رضی اللہ عنہ کی چار پائی ہمارے سامنے ہے)۔
اور اگر حضرت نجاشی رضی اللہ عنہ والی حدیث کے پیش نظر غائبانہ نماز جنازہ کے ثبوت کو مان بھی لیں تو پھر بھی اس حدیث سے ہر کسی کا غائبانہ نماز جنازہ پڑھنا ثابت نہیں ہوتا، بلکہ صرف اس مسلمان کا غائبانہ نماز جنازہ پڑھنا ثابت ہوتا ہے جو کافروں کے علاقے میں فوت ہوا ہو اور کسی نے اس کی نماز جنازہ نہ پڑھی ہو۔ چنانچہ حدیث کے مشہور امام ابو داؤد رحمہ اللہ نے اس حدیث پر یہ عنوان قائم کیا ہے:
’’باب الصلاة على المسلم يموت في بلاد الشرك‘‘
(ترجمہ: اس مسلمان پر نماز جنازہ پڑھنے کا بیان جو کفار اور مشرکین کے علاقے میں فوت ہو جائے)۔
نیز سلفی اور اہل حدیث حضرات کے بڑے عالم علامہ ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں:
الصواب أن الغائب إن مات ببلد لم يصل عليه فيه صلي عليه صلاة الغائب كما صلى النبي -صلى الله عليه وسلم- على النجاشي، لأنه مات بين الكفار ولم يصل عليه، وإن صلي عليه حيث مات لم يصل عليه صلاة الغائب، لأن الفرض قد سقط بصلاة المسلمين، والأقوال ثلاثة في مذهب أحمد أصحها هذا التفصيل. (زاد المعاد: 1/520، مكتبة المنار الإسلامية، كويت)
(ترجمہ: درست بات یہ ہے کہ اگر غائب شخص کی وفات ایسے شہر میں ہوئی ہو جہاں اس کی نماز جنازہ نہ پڑھی گئی ہو تو اس کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھی جائے گی، جیسا کہ حضور ﷺ نے نجاشی کی نماز جنازہ پڑھی، اس لیے کہ وہ کافروں کے علاقے میں فوت ہوئے اور ان پر نماز جنازہ نہیں پڑھی گئی ۔ اور اگر وہاں اس کی نماز جنازہ پڑھی گئی جہاں اس کی موت واقع ہوئی ہے، تو پھر غائبانہ نماز جنازہ نہ پڑھی جائے اس لیے کہ بعض مسلمانوں کے نماز جنازہ پڑھنے سے فرض ساقط ہو گیا۔ امام احمدؒ کے مذہب کے مطابق اس میں تین قول ہیں، اور سب سے صحیح قول یہ ہے۔)
اس مخصوص صورت حال کے علاوہ آپ ﷺ کی عادت مبارکہ اور سنت مبارکہ غائبانہ نماز جنازہ پڑھنے کی نہ تھی۔ سلفی اور اہل حدیث کے مشہور عالم علامہ ابن قیم اپنی کتاب زاد المعاد میں لکھتے ہیں:
ولم يكن من هديه وسنته -صلى الله عليه وسلم- الصلاة على كل ميت غائب، فقد مات خلق كثير من المسلمين، وهم غيب فلم يصل عليهم. (1/519).
(ہر غائب میت پر نماز جنازہ پڑھنا حضور ﷺ کا طریقہ اور دستور نہ تھا ، حالانکہ مسلمانوں کی کثیر تعداد کی دوسرے علاقوں میں وفات ہوئی، اور ان پر حضور ﷺ نے نماز جنازہ نہیں پڑھی)۔
ان تمام حوالہ جات سے بخوبی واضح ہو گیا کہ آپ ﷺ کی سنت اور عادت مبارکہ غائبانہ نماز جنازہ پڑھنے کی نہ تھی، اور جن احادیث کو غائبانہ نماز جنازہ کی دلیل کے طور پر ذکر کیا جاتا ہے ان میں سے بعض کا تو غائبانہ نماز جنازہ سے تعلق ہی نہیں ۔ اور جن کا تعلق ہے ان میں سے بعض سند کے اعتبار سے ضعیف ہیں اور بعض سند کے اعتبار سے صحیح ہیں لیکن ان میں میت معجزے کے طور پر آپ ﷺ کے سامنے کر دی گئی، اور اگر سامنے کرنے کی بات کو تسلیم نہ بھی کیا جائے تو یہ غائبانہ نماز جنازہ عمومی طور پر کسی کے لیے نہ تھی بلکہ صرف ان مخصوص لوگوں کے لیے تھی جن کا انتقال کافروں کے علاقے میں ہوا ہو اور ان کی نماز جنازہ نہ پڑھی گئی تھی۔
2۔ نماز جنازہ میں پہلی تکبیر کے بعد سورہ فاتحہ کے پڑھنے کو حنفیہ بھی مانتے ہیں۔ البتہ حنفیہ دو باتیں فرماتے ہیں:
i: نماز جنازہ میں سورۂ فاتحہ کا پڑھنا فرض اور واجب نہیں۔ اور جن احادیث میں نماز جنازہ میں سورۂ فاتحہ پڑھنے کا ذکر ملتا ہے، ان میں سے کسی روایت سے فرضیت یا وجوب ثابت نہیں ہوتا۔ چنانچہ خود حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت میں بھی صرف سورۂ فاتحہ کے سنت ہونے کی تصریح ہے۔
عن طلحة بن عبد الله بن عوف قال: صلينا خلف ابن عباس، فقرأ بفاتحة الكتاب، وقال لتعلموا أنها سنة. (صحيح البخاري: 1/178).
(ترجمہ: حضرت طلحہ بن عبد اللہ بن عوف فرماتے ہیں کہ ہم حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز جنازہ پڑھی تو آپ رضی اللہ عنہ نے سورہ فاتحہ تلاوت فرمائی اور فرمایا کہ (میں نے اس لیے سورہ فاتحہ تلاوت کی) تاکہ تم جان لو کہ سورہ فاتحہ پڑھنا سنت ہے)۔
عام نمازوں میں سورۂ فاتحہ سے متعلق روایات سے نماز جنازہ میں سورۂ فاتحہ کی فرضیت یا وجوب پر استدلال کرنا ایک تو محض قیاسی بات ہے، اور دوسرے یہ قیاس، قیاس مع الفارق ہے، جو کہ حجت نہیں۔
ii۔ نماز جنازہ میں سورۂ فاتحہ کا پڑھنا بطور قرآن کے ثابت نہیں، بلکہ بطور دعا اور ثناء کے پڑھ سکتے ہیں۔ دعا اور ثنا میں دیگر دعائیں بھی سورۂ فاتحہ کے قائمقام ہو سکتی ہیں، جبکہ قرآن ہونے میں دیگر دعائیں سورۂ فاتحہ کے قائمقام نہیں ہو سکتیں۔
اگر نماز جنازہ میں سورۂ فاتحہ کا پڑھنا بطور قرآن کے ہوتا تو حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے پہلی تکبیر کے بعد صرف حمد ثنا کرنا ثابت نہ ہوتا اور نہ ہی دوسری روایات میں نماز جنازہ میں قراءۃ کی نفی نہ ہوتی۔ حالانکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے پہلی تکبیر کے بعد صرف حمد وثنا کا پڑھنا ثابت ہے جیسا کہ ذیل میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے اور دیگر روایات میں نماز جنازہ میں قرآن پڑھنے کی نفی موجود ہے۔
موطا امام مالک میں ہے:
عن مالك عن نافع أن عبد الله ابن عمر -رضي الله عنه- كان لا يقرأ في الصلاة على الجنازة. (1/210)
(ترجمہ: امام مالک رحمہ اللہ حضرت نافع رحمہ اللہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نماز جنازہ میں (سورہ فاتحہ وغیرہ) کی قراءت نہیں کرتے تھے)۔
مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:
عن عبد الله ابن إياس عن إبراهيم عن أبي الحصين عن الشعبي قالا: ليس في الجنازة قراءة. (3/299)
(ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن ایاس حضرت ابراہیم سے اور وہ ابو الحسن اور امام شعبی سے روایت کرتے ہیں کہ دونوں بزرگ فرماتے ہیں کہ نماز جنازہ میں (سورہ فاتحہ وغیرہ کی) قراءت نہیں ہے)۔
موطا امام مالک میں ہے:
مالك عن سعيد بن أبي سعيد المقبري عن أبيه أنه سأل أبا هريرة كيف تصلي على الجنازة؟ فقال أبو هريرة إنا لعمر الله أخبرك اتبعها من أهلها فإذا وضعت كبرت وحمدت الله وصليت على نبيه ثم أقول: اللهم عبدك … إلخ. (209)
(امام مالک رحمہ اللہ حضرت سعید بن ابو سعید رحمہ اللہ سے روایت کرتے ہیں وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ان کے والد نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ آپ نماز جنازہ کیسے پڑھتے ہیں۔ تو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اللہ کی قسم! میں تمہیں بتلاتا ہوں (پھر فرمایا) کہ میں میت کےگھر سے ہی میت کے پیچھے چلوں گا، پھر جب جنازہ رکھ دیا جائے گا تو میں تکبیر کہوں گا، اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا کروں گا، اور حضور ﷺ پر درود پڑھوں گا، اور پھر یہ دعا پڑھوں گا: اللہم عبدک ۔۔ الخ)۔
مدونۃ الکبریٰ میں ہے:
قال ابن وهب عن رجال من أهل العلم عن عمر بن الخطاب وعلي بن أبي طالب وعبد الله بن عمر وفضالة بن عبيد وأبي هريرة وجابر بن عبد الله وواثلة بن الأسقع والقاسم بن محمد وسالم بن عبد الله وابن المسيب وربيعة وعطاء ابن أبي رباح ويحيى بن سعيد أنهم لم يكونوا يقرؤون في الصلاة على الميت. (1/267).
(ترجمہ: حضرت ابن وہب بہت سے اہل علم حضرات سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب اور حضرت علی بن ابو طالب اور عبد اللہ بن عمر اور فضالہ بن عبید اور حضرت ابو ہریرہ اور جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہم اور ابن المسیب اور ربیعہ اور عطاء بن ابی رباح اور یحیٰ بن سعید رحمہم اللہ یہ سب حضرات نماز جنازہ میں (سورہ فاتحہ وغیرہ) نہیں پڑھتے تھے)۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved