• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

ہندو لڑکی کے ارتداد کا حکم اور مسلمانوں کی ذمہ داری

استفتاء

اب سے کئی سال قبل ایک لڑکی ہندو مذہب چھوڑ کر مسلمان ہو گئی، اس لڑکی نے میٹرک، ایف اے اور بی اے میں اسلامیات رکھی تھی، یہ اسلام کو پسند کرتی تھی، اس نے اپنی پسندیدگی کا تذکرہ اپنی ایک استانی سے کیا اور اس طرح ایک نو مسلم فلاحی ادارہ کے کارکنوں اور چند خواتین کے توسط سے اسلام قبول کر لیا، لڑکی کو اسلام قبول کرا کر ایک دینی مدرسہ میں تعلیم کی غرض سے داخل کر دیا گیا، لڑکی کے باپ بچن لال نے فلاحی ادارہ کے ذمہ داران کے خلاف سیالکوٹ کی ایک عدالت میں لڑکی کو اغوا کرنے، بہلا پھسلا کر اسلام قبول کرانے کا ڈھونگ رچانے کا الزام لگا کر کیس کر دیا، اپنے بچاؤ کی خاطر نو مسلم فلاحی ادارہ کے ذمہ داران لاہور سے وکیل کر کے سیالکوٹ پہنچے اور جج کو درخواست دی جس میں گذارش کی گئی کہ عدالت لڑکی کو بازیاب کر کر اس کا اپنا ذای بیان قلم بند کرائے، چنانچہ عدالت نے لڑکی کو بازیاب کرایا اور اس کا بیان لیا، جو کہ یہ تھا:

"میں مسماۃ ……… بنت ……… اپنی چاہت سے مسلمان ہوئی ہوں مجھ پر کسی کا زور زبردستی، جبر و اکراہ نہ ہے”

جس پر متعلقہ جج نے اغواء کا پرچہ خارج کردیا اور ساتھ ہی لڑکی کو اپنے فیصلہ پر نظر ثانی کرنے کے لیے دار الامان بھیج دیا، لاہور کے فلاحی ادارہ نے ایک دن کے بعد دارالامان میں لڑکی تشویش اور پریشانی کے پیش نظر ایک اور درخواست دے کر لڑکی کو دوبارہ پیش کرانے کی تجویز پیش کی، قیام دار الامان کے دوران لڑکی کی ہندو ماں ملاقات کرتی رہی، جس کو عدالت نے خونی رشتہ ہونے کے سبب ملاقات کی اجازت دیدی تھی، ماں نے لڑکی کو ڈرا دھمکا کر گھر واپس چلنے کو کہا اور نہ جانے کی صورت میں اپنے آپ کو آگ لگانے کی دھمکی بھی دی، اس کے علاوہ اور بھی کئی ہندو دار الامان میں آکر ملاقات کرتے رہے، جبکہ کسی بھی مسلمان کو لڑکی سے خونی رشتہ نہ ہونے کے سبب ملاقات کی اجازت نہ تھی، لڑکی کو ایک روز کے بعد دوبارہ عدالت میں لایا گیا اور اس نے اپنے بیان ثانی میں کچھ ترمیم کر کے یہ قلم بند کرایا کہ:

"میں مسلمان ہوں، مسلمان رہنا چاہتی ہوں مگر اپنے گھر اپنے والدین کے ہمراہ جاؤں گی”۔

عدالت نے اسی کے مطابق فیصلہ سنا دیا، لڑکی پولیس کے پہرے میں اپنے والدین کے ہمراہ چلی گئی۔

مسلمانوں کو اس فیصلہ پر جو خدشات تھے وہ یہ تھے: کہ ہندو ماحول میں مسلمان لڑکی کیونکر مسلمان رہ سکے گی، اس بات کی کون ذمہ داری لے گا کہ ہندو مسلمان لڑکی کی شادی مسلمانوں میں ہی کریں گے، کیونکہ لڑکی مسلمان ہے ہندوؤں میں نہ کریں گے؟ ہندو اس  مسلمان لڑکی کو مار نہیں دیں گے؟ اس مسلمان لڑکی تعلیم و تربیت اور اسلام کے مطابق زندگی گذارنے، نماز، روزہ ادا کرنے میں کسی قسم کی کوئی رکاوٹ کھڑی نہ کریں گے؟ قدرتی موت مرجانے کی صورت میں اس کو پورے اسلامی اعزاز و اکرام کے ساتھ کفن دفن مسلمانوں کو کرنے دیں گے؟

ان تمام باتوں کا تذکرہ جج کے فیصلہ میں قطعاً نہ تھا، لڑکی گھر چلی گئی، اس کے بعد کئی ماہ تک باوجود تمام تر کوشش کے لڑکی کا کچھ اتا پتہ نہ چل سکا، کئی حیلہ کر کے خواتین کو بھی لڑکی کے گھر بھیجا گیا، مگر کچھ معلومات حاصل نہ ہو سکیں، حتی کہ یہ بھی معلوم نہ ہو سکا کہ لڑکی زندہ بھی ہے کہ نہیں؟ تقریباً تین چار ماہ گذرنے کے بعد ایک وکیل نے مسلمانوں کو لڑکی کی بازیابی اور معلومات حاصل کرنے کے لیے مشورہ دیا کہ آپ نیا کیس کریں، اس نئے کیس کے ذریعہ فوری طور پر ایک دو  پیشیوں میں لڑکی کو پیش کرنا پڑ جائے گا، اور یہ جو ہندوؤں نے مشہور کر دیا ہے کہ لڑکی واپس ہندو ہو گئی ہے اس کا بھی پتہ چل جائے گا، آپ درخواست میں یہ لکھیں  کہ: "ہم نے تو اسلام قبول کرتے ہی لڑکی کی شادی کر دی تھی "، اور کسی مسلمان لڑکے کو تیار کر لیں جو بطور شوہر کے پیش ہو جائے، اگر لڑکی ہمارے تحفظ میں آ گئی تو اسی لڑکے سے شادی کر دیں گے۔ اس کیس سے لڑکی کی بازیابی کے ساتھ ساتھ ایک طرح سے لڑکی پر اسٹے ہو جائے گا اور ہندو لوگ اس مسلمان لڑکی کا نکاح کسی سے بھی نہ کر سکیں گے، جب تک کہ کیس کا فیصلہ نہ ہو جائے۔

چنانچہ مسلمانوں نے ایسا ہی کیا، پہلی تاریخ پر ہندوؤں کی طرف سے کوئی سامنے نہ آیا بلکہ اگلی کوئی تاریخ لے لی گئی، دوسری یا تیسری تاریخ پر لڑکی اور اس کا باپ وغیرہ عدالت میں سامنے آئے، انہوں نے شادی کے وجود سے انکار کیا، مسلمانوں نے جعلی گواہ پیش کیے، ۔۔۔ مسلمانوں کے وکیل نے طبی معانیہ کی اجازت جج سے مانگی، جس پر عدالت میں لڑکی اور اس کے والدین اور ان کے وکیل کی جانب سے خاصا شور برپا ہوا۔ اس تمام جعلی کیس سے مسلمانوں کا مقصد صرف اور صرف ایک تو لڑکی کی بازیابی، دوسرے ہندوؤں کو لڑکی کے نکاح سے باز رکھنا تھا، ان مقاصد میں گو مسلمانوں کو کامیابی ہوئی کہ لڑکی کا پتہ چل گیاکہ وہ زندہ صحیح سلامت ہے، دوسرے اس کی کئی سال گذر جانے کے بعد چونکہ کیس چل رہا ہے ہندو سے شادی نہ کر سکے، اڑھائی تین سال گذرنے پر مسلمانوں نے ہندوؤں کی اس بات پر کہ لڑکی واپس ہندو ہو چکی ہے یہ کہا کہ مسلمان خواتین کی لڑکی سے علیحدگی میں ملاقات کرائی جائے۔ چنانچہ لڑکی سے یہی بات سامنے آئی کہ وہ واپس ہو گئی ہے۔ اب مفتی صاحب دریافت طلب یہ امور ہیں :

لڑکی کے ارتداد کا شرعی حکم کیا ہے؟

ہندو صرف اس بات پر سارا زور صرف کر رہے ہیں اور منت سماجت کر رہے ہیں کہ لڑکی واپس ہندو ہو گئی ہے، آپ کی مہربانی کیس واپس لے لیں اور ہماری جان بخشیں، تو اس کیس سے مسلمانوں کو دستبردار ہو جانا درست ہے؟ جبکہ پہلے کیس میں لڑکی کا از خود مسلمان ہونا، اسلام پر قائم رہنے کی چاہت کا اظہار تحریری طور پر لڑکے دستخطوں کے ساتھ موجود ہے۔ اب تک مسلمانوں کا اسی پر اصرار ہے کہ لڑکی ان کے حوالہ کی جائے، اس کی ہر طرح کی ذمہ داری مسلمانوں پر ہے، وہی اس کے ذمہ داری کو اٹھانے کے اہل ہیں۔

حضرت مفتی صاحب قرآن و سنت کی روشنی میں دلائل اور حوالوں سے واضح فرما دیں کہ مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے ؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved