- فتوی نمبر: 5-298
- تاریخ: 26 جنوری 2013
- عنوانات: مالی معاملات > خرید و فروخت
استفتاء
ہمارا ***میں پرانا کاروبار ہے۔ مگر ہم حالیہ برسوں میں چائنہ سے آنے والے مال کی وجہ سے بہت پریشان ہیں۔ ساری دنیا میں سب سے سستی لاگت کی وجہ سے تقریباً ساری دنیا کی انڈسٹری چائنہ منتقل ہو رہی ہے۔ اور بہت سی انٹرنیشنل کمپنیاں اپنی مصنوعات چائنہ کی مقامی فیکٹریوں سے آرڈر پر تیار کروا کر ساری دنیا میں سپلائی کر رہی ہیں۔ ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بجلی و گیس کی عدم دستیابی کی وجہ سے زیادہ تر مقامی کمپنیاں بھی اپنے برانڈ چائنہ سے تیار کرواکر ملک میں فروخت کر رہی ہیں۔ ( نوٹ: کمپنی اپنا میٹیریل دے ایسی نوبت کم ہی آتی ہے۔) مخدوش صورتحال، کمزور حکومتی گرفت اور پورٹ سے مارکیٹوں تک سرکاری اہلکاروں کی ملکی بھگت سے ہر طرح کی دو نمبر چیز ملک میں لائی جارہی ہے اور کوئی بھی مقامی یا ملٹی نیشنل کمپنی خواہ کتنا ہی سیاسی دباؤ ڈالے آج تک دو نمبر چیز کی آمد کو نہیں روک سکی۔ کیونکہ ملک کی ساٹھ فیصد آبادی دیہات میں رہتی ہے جہاں دو نمبر چیز کے حوالے سے دور دور تک کوئی قانون نظر نہیں آتا۔
چائنہ سے آنے والے دو نمبر مال کی چند صورتیں ہیں جو کہ بالتفصیل پیش خدمت ہیں:
1۔ کسی بھی مقامی یا ملٹی نیشنل کمپنی کے برانڈ کی ہلکی سے ہلکی کاپی کروانا جو لاگت میں سب سے کم ہو۔ چونکہ میڈیا پر اشتہار بازی یا پرانے ہونے کی وجہ سے برانڈ کا نام ہر ایک زبان پر ہوتا ہے اس لیے اگرچہ دیہات میں ہی ہو آسانی سے بک جاتا ہے اور آج کل چائنہ کی کمپنیوں کو اس کا آرڈر بھی زیادہ ملتا ہے اس لیے ان کے پاس اس کی ڈائی وغیرہ دیگر لوازمات موجود ہوتے ہیں۔ تو چائنہ کی کمپنیاں مزید سستا بھی بنا دیتی ہیں۔ نیز چونکہ بہت سے پاکستانی تاجر اس چیز کا چائنہ کی فیکٹری کو آرڈر دے دیتے ہیں تو مقدار بڑھ جانے کی وجہ سے بھی فیکٹری سب کو سستا ریٹ دے دیتی ہے۔ اس کے مقابلے میں اگر ہم اپنا برانڈ نکالیں تو چائنہ سے اتنا سستا تیار بھی نہیں کروا سکیں گے پھر مارکیٹنگ کے لیے میڈیا کے خرچے اور دکانداروں کے نخرے کیسے برداشت کریں گے۔ جبکہ چائنہ تک ہر ایک کی بسہولت رسائی کی وجہ سے آپس کی مقابلہ بازی میں نفع بہت کم رہ گیا ہے۔
2۔ دوسری صورت یہ ہے کہ جب بھی کوئی کمپنی چائنہ کی فیکٹری کو اپنا آرڈر دیتی ہے تو اپنی کل مطلوبہ تعداد بتاتی ہے اور اس کے حساب سے ریٹ طے کرتی ہے اور پوری مقدار ہی اٹھاتی ہے۔ نہ کم اٹھاتی ہے نہ زیادہ کیونکہ کنٹینر میں زیادہ وزن نہیں آسکتا۔ چائنہ کی فیکٹری کو چونکہ مطلوبہ مقدار، تعداد پوری کرنی ہوتی ہے اور مشین میں بنتے وقت بعض پیس خراب ہوجاتے ہیں یا بعد میں ان میں کوئی مسئلہ آسکتا ہے جبکہ مشین کو ڈائی، میٹیریل، کلر وغیرہ دسیوں چیزیں پوری کر کے چلایا جاتا ہے اور چند خراب پیس کے لیے دوبارہ چلانا ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے تو چائنہ کی فیکٹری ہمیشہ کچھ زیادہ پیس تیار کرتی ہے مثلاً دس لاکھ پیسز تیار کرنے ہوں تو پانچ ہزار زائد تیار کرے گی تاکہ اسے بعد میں زحمت نہ ہو اور آرڈر دینے والی کمپنی کو ریٹ دیتے وقت اپنے ذہن میں یہ رکھ کر ریٹ دیتی ہے حتی کہ آرڈر کے دس لاکھ پیس پورے کر دیتی ہے اور باقی رہنے والے پانچ ہزار پیس جن میں کچھ خراب بھی شامل ہوتے ہیں گودام میں رکھ دیتی ہے۔ مگر چائنہ کے ملکی قوانین کی وجہ سے وہ زیادہ دیر تک اپنے گودام میں نہیں رکھ سکتی تو اسے مال کو نکالنا بھی ہوتا ہے۔ چونکہ دنیا کے دیگر ممالک میں اتنی آسانی نہیں ہے جتنی پاکستان میں ہے تو پاکستان کے ایجنٹ مسلسل چائنہ میں گھومتے رہتے ہیں اور ایسے مال کو نہایت سستے داموں اونے پونے خرید کر پاکستان لے آتے ہیں۔ وہ مال دو طرح کا ہوتا ہے:
۱۔ ایک یہ کہ آرڈر دینے والی کمپنی مثلاً جرمنی کی ہے اور اس نے آرڈر میں یہ بھی کہا تھا کہ اس پر میڈ ان جرمنی لکھ کر اور پوری پیکنگ کر کے تیار دینا ہے۔
۲۔ دوسرا یہ کہ صرف چیز تیار کر کے دے دو پیکنگ اور میڈ ان جرمنی ہم خود لکھیں گے۔ ایسا مال جب پاکستان آتا ہے تو بعض اصل جیسی پیکنگ تیار کروالیتے ہیں اور لوگ اس کو ویسے ہی خالی ڈبے میں بند کر کے بیچ دیتے ہیں۔ دونوں طرح کا مال پاکستان پہنچ جاتا ہے اور کمپنی کا اصل مال کر کے بکتا ہے اور ہول سیل مارکیٹ میں انتہائی سستا ملتا ہے۔ پھر بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو مثلا پانچ ہزار پورے ملک کی ڈیمانڈ کے لیے کافی ہوتی ہیں لہذا ہم اگر جرمنی کی کمپنی سے منگوائیں تو ہمارا مال مہنگا ہونے کی وجہ سے تقریبا نہیں بکے گا۔ اور بہت سے چیزیں مثلاً پانچ ہزار کی مقدار میں اگر چہ ملکی ڈیمانڈ کے مطابق ناکافی ہوتی ہیں مگر چونکہ ہماری مارکیٹ ہول سیل کی ہے لہذا جب سستی چیز مارکیٹ میں دستیاب ہو تو ریٹ خراب ہوتا ہے اور ہمارے لیے اصل چیز بیچنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ ایسے ہی ایک ہی چیز کا اپنے گاہک کو ہم نے تائیوان کی اصل کمپنی کا انتہائی مناسب ریٹ 1300 روپے بتایا تو گاہک نے فوراً کہا کہ ساتھ والا دکاندار یہ چیز 675 روپے میں بیچ رہا ہے۔
*** کے دو نمبر مال لانے والے تاجروں کا کہنا ہے کہ ہم اس طرح سے کام کر کے اگرچہ نفع کما رہے ہیں مگر مہنگائی کے اس دور میں عوام کے ساتھ ہمدردی کر رہے ہیں کہ ایک دو نمبر چیز عام آدمی کو مثلاً دو سے تین روپے میں مل رہی ہے ورنہ اسے وہی چیز دس سے گیارہ روپے میں خریدنی پڑے گی۔ واضح رہے کہ دو نمبر چیز کے سستے ہونے کا فائدہ بہت مرتبہ استعمال کنندہ کو بھی ہوتا ہے کیونکہ دیہات میں عوام کی قوت خرید بھی کم ہوتی ہے۔ البتہ بعض وہ چیزیں کہ جو دوسری صورت کے ضمن میں آتی ہیں بعض اوقات ان کے سستا ہونے کا فائدہ استعمال کنندہ کو نہیں ہوتا کیونکہ ان کا دو نمبر ابھی صرف مارکیٹ میں ہی پھیلا ہوتا ہے عوام میں نہیں پھیلتا۔ یا پھر کوئی شخص بہت دور دراز کے قصبوں دیہاتوں میں رہتا ہو تو سارا نفع دکاندار کھا جاتے ہیں گاہک کو کوئی فائدہ نہیں دیتے ۔ مگر یہ بھی اس وقت ہوتا ہے جب کسی چیز کے اوپر اس کا ریٹ چھپا ہوا نہ ہو پھر استعمال کنندہ کو فائدہ بہرحال ہوتا ہے کیونکہ دکاندار نے اپنے حساب سے نفع لینا ہوتا ہے۔ اگر اسے مہنگی چیز ملے گی تو زیادہ مہنگی بیچے گا اگر سستی ملے گی تو سستی بیچے گا۔ ہمارا سوال یہ ہے کہ حکومتی روک تھام نہ ہونے کی وجہ سے یہ کام اتنا بڑھ گیا ہے کہ صحیح اور اصل کام کرنے والے پرانے لوگ ایک کونے پر لگ چکے ہیں تو ہمارے لیے ان ساری صورتوں میں کسی صورت شامل ہونے کی کس حد تک شرعاً اجازت ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مال پر خواہ Made in Germany لکھا ہوا ہویا نہ لکھا ہوا ہو اگر اس کو بازار میں فروخت کرنا ہو تو اس پر عیب دار ( Defective) کا لیبل لگا کر فروخت کرسکتے ہیں ورنہ دھوکہ دینے کا گناہ ہوگا۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved