- فتوی نمبر: 5-314
- تاریخ: 20 فروری 2013
- عنوانات: مالی معاملات > خرید و فروخت
استفتاء
1 ۔ ایک آدمی موٹر سائیکل ادھار خریدتا ہے۔ نئی موٹر سائیکل کا ریٹ نقد مارکیٹ میں 67000 روپے ہے۔ یہ نقد خرید کر کے
دوسرے آدمی کو ادھار میں 90000 روپے میں کی تین یا چار ماہ کی ادھار میں دیتا ہے۔ اگر رقم دینے والا مقررہ مدت پر رقم نہیں بھی دے سکتا تو مزید کچھ دن یا ایک ماہ دیر سے دیتا ہے۔ تو اس طرح یہ جائز ہے یا نہیں؟
2۔ اسی طرح آدمی ٹریکٹر نقد چھ لاکھ روپے کا خرید کر کے ادھار آٹھ لاکھ پچاس ہزار روپے میں یا کچھ کم یا زیادہ کی رقم ڈیڑھ سال کی مدت تک یعنی ہر چھ ماہ بعد قسط طے کرکے فروخت کرتا ہے۔ اس میں بھی دینے والا اکثر قسط لیٹ کرتا ہے۔ یا دوسری قسط تک لیٹ کر دیتا ہے۔ وصول کرنے والا طے شدہ رقم سے مزید نہیں بڑھاتا۔ کیا اس طرح اتنا زیادہ نفع ادھار کی شکل میں جائز ہے یا اس طرح کا کارو بار جائز ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
2-1۔ اصولی طور سے کسی چیز کو ادھار فروخت کرنے میں قیمت زیادہ رکھی جاسکتی ہے البتہ اس کے لیے دو باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے:
۱۔ جو قیمت بھی رکھی جائے اسے معاہدے کی مجلس میں ہی طے ہونا چاہیے۔
۲۔ قسط کی ادائیگی بروقت نہ ہونے کی صورت میں اضافی جرمانہ عائد نہ کیا جائے۔ نہ اس کو معاہدہ میں لکھا جائے اور نہ عملاً ادائیگی کی جائے۔ اس لیے موٹر سائیکل اور ٹریکٹر کی خرید و فروخت کی مذکورہ صورت درست ہے۔ البتہ نفع لینے میں انسانی اور اسلامی ہمدردی کا لحاظ کیا جائے۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved