- فتوی نمبر: 146-27
- تاریخ: 29 جولائی 2022
- عنوانات: عقائد و نظریات > گمراہ افراد، نظریات اور جدید فتنے
استفتاء
مفتی صاحب!(1)غامدی پر اتنے اعتراضات کیوں ہوتے ہیں اسلامی دنیا میں اس کی سوچ ،نظریات پر ؟(2)کیا اس کےمضامین اورکتابیں پڑھنا ٹھیک ہے ؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔جاوید احمد غامدی کے نظریات قرآن وحدیث اوراہل سنت والجماعت کےمتفقہ عقائد سے متصادم ہیں ۔ جن میں سے چند درج ذیل ہیں:
1۔حضرت عیسی علیہ السلام کی حیات کاانکار ۔
چنانچہ ماہنامہ اشراق اپریل 1995ء صفحہ 45پر غامدی صاحب لکھتے ہیں:
’’سیدنا مسیح علیہ السلام کےبارے میں جوکچھ میں قرآن مجید سے سمجھ سکا ہوں وہ یہ ہے کہ ان کی روح قبض کی گئی اوراس کےفوراً بعد ان کاجسد مبارک اٹھالیا گیا تھاکہ یہود اس کی بے حرمتی نہ کریں ۔یہ میرے نزدیک ان کےمنصب رسالت کا ناگزیر تقاضا تھا ،چنانچہ قرآن مجید نے اسے اسی طرح بیان کیا ہے اني متوفيک رافعک الي ،اس میں دیکھ لیجئے ’’توفی‘‘ وفات کےلیے اور’’رفع ‘‘اس کےبعد رفع جسم کےلیے بالکل صریح ہے‘‘۔
2۔حضرت عیسی علیہ السلام کے نزول اورامام مہدی کےظہور کاانکار
چنانچہ میزان (ص:177)میں لکھتے ہیں:
’’ان کےعلاوہ ظہور مہدی اور مسیح علیہ السلام کےآسمان سے نزول کوبھی قیامت کی علامات میں شمار کیا جاتا ہے ۔ہم نے ان کاذکر نہیں کیا،اس کی وجہ یہ ہے کہ ظہور مہدی کی روایتیں محدثانہ تنقید کےمعیار پر پوری نہیں اترتیں ۔ان میں کچھ ضعیف اورکچھ موضوع ہیں۔اس میں شبہ نہیں کہ بعض روایتوں میں جو سند کےلحاظ سے قابل قبول ہیں ،ایک فیاض خلیفہ کےآنے کی خبردی گئی ہے،لیکن دقت نظر سے غور کیا جائےتو صاف واضح ہوجاتا ہے کہ اس کامصداق سیدنا عمربن عبدالعزیز تھے جو خیرالقرون کےآخر میں خلیفہ بنے،رسول اللہ ﷺ کی یہ پیشین گوئی ان کے حق میں حرف بہ حرف پوری ہوچکی ہے،اس کےلیے کسی مہدی موعود کےانتظار کی ضرورت نہیں ہے۔نزول مسیح کی روایتوں کو اگرچہ محدثین نے بالعموم قبول کیا ہے لیکن قرآن مجید کی روشنی میں دیکھئے تو وہ بھی محل نظر ہیں:
اوّلاً ،اس لیے کہ مسیح علیہ السلام کی شخصیت قرآن مجید میں کئی پہلوؤں سے زیر بحث آئی ہے ان کی دعوت اورشخصیت پر قرآن نے جگہ جگہ تبصرہ کیا ہے ۔روز قیامت کی ہلچل بھی قرآن کاخاص موضوع ہے،ایک جلیل القدر پیغمبر کےزندہ آسمان سے نازل ہوجانے کاواقعہ کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے۔لیکن موقع بیان کے باوجود اس واقعے کی طرف کوئی ادنی اشارہ بھی قرآن کےبین الدفتین کسی جگہ مذکور نہیں ۔ علم وعقل اس خاموشی پر مطمئن ہوسکتے ہیں؟ اسے باور کرنا آسان نہیں‘‘۔
3۔احسان وتصوف کو گمراہی خیال کرنا
چنانچہ برہان(ص:156)میں لکھتے ہیں:
’’اس لحاظ سے دیکھا جائے تو اللہ کی ہدایت یعنی اسلام کےمقابلے میں تصوف وہ عالمگیر ضلالت ہے جس نے دنیا کے ذہین ترین لوگوں کو متاثر کیاہے‘‘
4۔قرآن کی صرف ایک ہی قراءت درست ہے باقی سب قراءتیں عجم کافتنہ ہیں۔
چنانچہ میزان ص32طبع دوم اپریل 2002ء )میں لکھتے ہیں:
’’یہ بالکل قطعی ہے کہ قرآن کی ایک ہی قراءت ہے اس کے علاوہ سب قراءتیں فتنہ عجم کے باقیات ہیں‘‘۔
5۔حدیث رسول ﷺ سے کوئی اسلامی عقیدہ یا عمل ثابت نہیں ہوتا۔
چنانچہ میزان ص24طبع دوم ،اپریل 2002ء)میں لکھتے ہیں:
’’اس (یعنی حدیث)سے دین میں کسی عقیدہ وعمل کا کوئی اضافہ نہیں ہوتا ‘‘
6۔حضور ﷺ نے حدیث کی حفاظت اورتبلیغ واشاعت کےلیے کوئی بھی اہتمام نہیں کیا۔
چنانچہ میزان (حصہ دوم ، ص، 68طبع دوم ،اپریل 2002)میں لکھتے ہیں:
’’نبی ﷺ کےقول وفعل اورتقریر وتصویب کی روایتیں جو زیادہ تر اخبار آحاد کےطریقے پر نقل ہوئی ہیں اورجنہیں اصطلاح میں حدیث کہا جاتا ہے،ان کےبارےمیں یہ دوباتیں ایسی واضح ہیں کہ کوئی صاحب علم انہیں ماننے سے انکارنہیں کرسکتا ۔ایک یہ کہ رسول ﷺ نے ان کی حفاظت اورتبلیغ واشاعت کےلیے کبھی کوئی اہتمام نہیں کیا۔ دوسری یہ کہ ان سے جوعلم حاصل ہوتا ہے وہ کبھی علم یقین کےدرجے تک نہیں پہنچتا‘‘
7۔نبی ﷺ کی وفات کےبعد کسی شخص کو کافر قرار نہیں دیا جاسکتا ۔
چنانچہ ماہنامہ اشراق(ص،54،55دسمبر2000)میں لکھتے ہیں:
’’کسی کوکافر قراردینا ایک قانونی معاملہ ہے ۔پیغمبراپنے الہامی علم کی بنیاد پر کسی گروہ کی تکفیر کرتاہے یہ حیثیت اب کسی کوحاصل نہیں‘‘
8۔عورت کےلیے دوپٹہ پہننا شرعی حکم نہیں
ماہنامہ اشراق ص،47مئی 2002)میں لکھتے ہیں:
’’دوپٹہ ہمارے ہاں مسلمانوں کی تہذیبی روایت ہے اس بارے میں کوئی شرعی حکم نہیں ہے ،دوپٹے کواس لحاظ سے پیش کرنا کہ یہ شرعی حکم ہے اس کا کوئی جواز نہیں۔‘‘
9۔جہاد کےبارے میں کوئی شرعی حکم نہیں
چنانچہ اشراق اگست (0092)میں لکھتے ہیں:
جہاد کے معنی کسی جدوجہد میں پوری قوت صرف کر دینے کے ہیں۔ قرآن میں یہ تعبیر جس طرح اللہ کی راہ میں عام جدوجہد کے لیے آئی ہے، اِسی طرح قتال فی سبیل اللہ یا اللہ کی راہ میں جنگ کے لیے بھی آئی ہے۔ اِس کی دو صورتیں قرآن میں بیان ہوئی ہیں:
ایک کفر کے خلاف جنگ، دوسرے ظلم و عدوان کے خلاف جنگ۔
پہلی صورت کا تعلق شریعت سے نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کے قانون اتمام حجت سے ہے جو اِس دنیا میں ہمیشہ اُس کے براہ راست حکم سے اور اُنھی ہستیوں کے ذریعے سے روبہ عمل ہوتا ہے جنھیں وہ رسالت کے منصب پر فائز کرتا ہے۔ انسانی تاریخ میں یہ منصب آخری مرتبہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہوا ہے۔
2۔ایسے گمراہ آدمی کی تحریریں پڑھنا یا لیکچرسننا اپنے دین کو خطرے میں ڈالنا ہے اس لیے جائز نہیں ہے۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved