- فتوی نمبر: 27-34
- تاریخ: 21 جولائی 2022
- عنوانات: عبادات > نماز > اذان و اقامت کا بیان
استفتاء
الزیادۃ فی الاذان مکروہۃ(البحرالرائق)سے کراہت تحریمی مراد ہے یا تنزیہی۔؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں کراہت سے کراہت ِ تحریمی مراد ہے یا تنزیہی؟ ہمیں اس کی صراحت نہیں ملی البتہ مندرجہ ذیل امور سے معلوم ہوتا ہے کہ کراہت سے مراد کراہتِ تحریمی ہے۔ (1) زیادۃ فی الاذان تعاملِ امت کے خلاف ہے۔ (2)جب کراہت مطلق ہو تو عموماً اس سے مراد تحریمی ہوتی ہے۔ (3) زیادۃ فی الاذان کو بدعت کہا گیا ہے جو اس کے مکروہ تحریمی ہونے کی طرف مشیر ہے۔
حاشیہ ابن عابدین (2/487)میں ہے:
مطلب في الكراهة التحريمية والتنزيهية
(قوله هذه تعم التنزيهية إلخ) قال في البحر: والمكروه في هذا الباب نوعان. أحدهما: ما يكره تحريما وهو المحمل عند إطلاقهم كما في زكاة الفتح،
بدائع الصنائع (1/365)میں ہے:
أما بيان كيفية الأذان فهو على الكيفية المعروفة المتواترة من غير زيادة ولا نقصان عند عامة العلماء
البحر الرائق (2/565) میں ہے:
قيدنا بالزيادة في التلبية؛ لأن الزيادة في الأذان غير مشروعة؛ لأنه للإعلام ولا يحصل بغير المتعارف وفي التشهد في الصلاة إن كان الأول فليست بمشروعة كتكراره؛ لأنه في وسط الصلاة فيقتصر فيه على الوارد، وإن كان الأخير فهي مشروعة؛ لأنه محل الذكر والثناء۔
مؤطا امام محمد (96) میں ہے:
قال محمد: الصلاة خير من النوم يكون ذالك في نداء الصبح بعد الفراغ من النداء ولا يحب أن يزاد في النداء ما لم يكن منه ۔
التعليق الممجد (96)ميں ہے:
(2) قوله: ما لم يكن منه، يشير إلى حديث “من أحدث في أمرنا هذا ما ليس منه فهو رد”،
کفایت المفتی (3/50)میں ہے:
اگر اذان او راقامت کے اخیر میں محمد رسول اللہ کا اضافہ اسی آواز اورلہجہ سے کیا جائے جس آوازاور لہجے سے اذان و اقامت کہی ہے تو یہ اضافہ بدعت ہے،اور اگرآہستہ آواز سے کوئی اپنے دل میں محمد رسول اللہ بھی کہہ لے تو یہ مباح ہوگا۔اسی طرح کسی دعائے ماثورہ میں اپنی طرف سے یہ اضافہ ہے۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved