• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

اقامت کے وقت ہاتھ باندھنا

استفتاء

نماز شروع کرنے سے پہلے  اقامت کے دوران آدمی ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو سکتا ہے ؟ یا پھر اقامت کے دوران ہاتھوں کو کھلا چھوڑنا ضروری ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

اقامت کے دوران ہاتھوں کو  باندھنا  حدیث یا فقہ کی کسی روایت سے ثابت نہیں، اس  لیے ا س دوران ہاتھ نہیں باندھنے چاہئیں بلکہ اقامت کے دوران دونوں ہاتھوں کو  لٹکائے رکھنا چاہیے۔

احسن الفتاویٰ (297/2) میں ہے:

سوال: جب مؤذن اقامت کہتا ہے، اس وقت عام طور پر مقتدی ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوتے ہیں، مگر اس کو سنت نہیں سمجھتے، پھر تکبیر تحریمہ کے بعد سنت کے مطابق ہاتھ باندھتے ہیں، معلوم ہوا کہ آپ اس سے منع فرماتے ہیں، کیا یہ درست ہے؟ بینو توجروا 

الجواب:تکبیر تحریمہ سے قبل ہاتھ باندھنا کہیں سے ثابت نہیں، اس کو سنت نہ سمجھا جائے تو بھی چونکہ  یہ حدودِ  شرعیت پر زیادتی ہے، اس لیے مکروہ ہے، علاوہ ازیں لٹکے ہوئے ہاتھوں کو تکبیر تحریمہ کے وقت کانوں تک لے جانے میں جس قدر احکم الحاکمین کی عظمتِ شان کا اظہار ہے، بندھے ہوئے ہاتھوں کو اٹھانے میں اتنا نہیں، لہذا اس رسم کا ترک اور دوسروں کو اس سے احتراز کی تبلیغ لازم ہے۔ح

فتاویٰ رحیمیہ(93/4) میں ہے:

(سوال) کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ   جب مؤذن تکبیر کہتا ہے توبعض نمازی ہاتھ باندھ کر کھڑے رہتے ہیں اور اس کو اچھا سمجھتے ہیں اور اسی حالت میں تکبیر تحریمہ کہتے ہوئے ہاتھ باندھتے ہیں تو اس طرح جماعت کی صف میں کھڑا رہنا سنت ہے یا مستحب ؟ اگر یہ سنت یا مستحب نہ ہو تو اس پر عمل نہ کرنے والے کو بے وقوف ،جاہل وغیرہ کہنا کیسا ہے ؟اور مستحب و مستحسن طریقہ کیا ہے؟

(الجواب) نماز شروع ہونے سے قبل قیام کی حالت میں جب صف لگائی جارہی ہو ، اور قدم درست اور برابر  کیے جار ہے ہوں اس وقت ہاتھ باندھنا نہ مسنون ہے نہ مستحب ۔ لہذا اس وقت ہاتھ باندھنے کو مسنون سمجھنا اور نہ باندھنے والے کو بے قوف جاہل کہنا غلط ہے۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved