• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

بارش کے موقع پر اذان دینا

استفتاء

بارش کے موقع پر جو اذان دی جاتی ہے کیا یہ طریقہ  کار شریعت مطہرہ میں ثابت ہے ؟ اور لوگ کہتے ہیں کہ تین اذانیں دینی ہیں۔ مہربانی فرما کر شریعت کے مطابق رہنمائی فرمائیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

بارش کے موقع پر اذان دینا شریعت مطہرہ سے اس طرح تو ثابت نہیں کہ آپ ﷺ یا حضرات صحابہ کرام ؓ نے اس موقع پر اذان دی ہو یا حضرات فقہائے  کرام ؒ نے بارش کے موقع پر اذان دینے کو ذکر کیا ہو، تاہم حدیث میں نماز کے علاوہ بھی اذان دینا ثابت ہے، جیسے نومولود کے کان میں  اور غم میں مبتلا شخص کے کان میں ۔ اسی طرح  حضرات فقہائے کرام نے بھی متعدد ایسے مواقع ذکر کیے ہیں جن میں اذان دینا مستحب لکھا ہے ان مواقع میں اگرچہ بارش کا ذکر نہیں لیکن ان کا ذکر بطور حصر کے بھی نہیں کہ ان کے علاوہ میں اذان دینا ممنوع ہو بلکہ ان مواقع میں غور کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کسی ناگہانی آفت اور پریشانی کے وقت اذان دینے کی اجازت ہے لہذا جو بارش آفت کی صورت  اختیار  کر جائے ایسی بارش کے موقع پر اگر اس نیت سے اذان دی جائے کہ شاید اللہ تعالیٰ اذان اور اپنے نام کی برکت سے اس آفت سے نجات دیدے تو اس کی گنجائش معلوم ہوتی ہے ، تاہم اس کے لیے تین اذانیں دینا ضروری نہیں۔

مناقب  علیؓ بن ابی طالب  لابن الجزری (صفحہ نمبر:49,50) میں ہے:

أخبرنا شيخنا الإمام المحدث جمال الدين يوسف بن محمد بن مسعود البرموي رحمه الله مشافهة أخبرنا شيخنا الإمام أبو البنا محمود بن محمد ابن محمود المقري قال : أخبرنا شيخنا أبو أحمد عبدالصمد  بن أحمد  بن أبي الجيش ، أخبرنا أبو محمد يوسف بن عبدالرحمن بن علي  بن محمد  بن الجزري قال أخبرنا والدي ، أخبرنا محمد بن ناصر الحافظ قال: أخبرنا أحمد بن علي ابن خلف  قال : أخبرنا أبو عبدالرحمن السلمي قال: أخبرنا عبدالله بن موسى السلمي قال: أخبرنا المفضل بن عباس الكوفي قال : حدثنا الحسن بن هارون الضبي قال: حدثنا عمر بن حفص بن غياث ، عن أبيه ، عن جعفر بن محمد ، عن أبيه ، عن علي بن الحسين ، عن أبيه، عن علي بن أبي طالب رضي الله عنه قال: رآني النبي ﷺ حدثنا فقال : يأبن أبي طالب أراك حزينا ؟ قلت هو كذلك قال  فمر بعض أهلك يؤذن في أذنك فإنه دواء الهم قال ففعلت فزال عني۔

قال الحسين رضي الله عنه جربته فوجدته كذلك ، قال علي بن الحسين جربته فوجدته كذلك ، قال حفص بن غياث جربته فوجدته كذلك ، قال عمر بن حفص جربته فوجدته كذلك ، قال الحسن بن هارون جربته فوجدته كذلك ، قال الفضيل جربته فوجدته كذلك، قال عبدالله بن موسى جربته فوجدته كذلك قال أبوعبدالرحمن جربته فوجدته كذلك ، قال أبوبكر جربته فوجدته كذلك ، قال عبدالرحمن الجزري لم أسمع  ابن ناصر يقول فيه شيئا، بل جربته أنا فوجدته كذلك ، قال أبو محمد يوسف جربته فوجدته كذلك ، قال عبدالصمد جربته فوجدته كذلك ، قال أبو الربيع جربته فوجدته كذلك ، قلت : ولم أسمع شيخنا البرموي يقول فيه شيئا ولكني جربته فوجدته كذلك۔

هذا حديث حسن التسلسل لم أر في رجاله من تكلم فيه بقدح والله أعلم، قلت : صح وجرب لمن نزل به كرب أو شدة مما علمه النبي ﷺ عليا رضي الله عنه ولقنه إياه وهو مجرب.

تنویر الابصار مع در المختار (62,63/2) میں ہے:

  (‌لا) ‌يسن (أي الأذان : از ناقل ) (‌لغيرها) كعيد

قال ابن عابدين: (قوله: ‌لا ‌يسن ‌لغيرها) أي من الصلوات وإلا فيندب للمولود. وفي حاشية البحر الرملي: رأيت في كتب الشافعية أنه قد يسن الأذان لغير الصلاة، كما في أذان المولود، والمهموم، والمصروع، والغضبان، ومن ساء خلقه من إنسان أو بهيمة، وعند مزدحم الجيش، وعند الحريق ….وقال المنلا علي في شرح المشكاة قالوا: يسن للمهموم أن يأمر غيره أن يؤذن في أذانه فإنه يزيل الهم، … (قوله: كعيد) أي ووتر وجنازة وكسوف واستسقاء وتراويح وسنن رواتب، لأنها اتباع للفرائض والوتر وإن كان واجبا عنده لكنه يؤدى في وقت العشاء فاكتفي بأذانه لا لكون الأذان لهما على الصحيح كما ذكره الزيلعي. اهـ. بحر فافهم، لكن في التعليل قصور لاقتضائه سنية الأذان لما ليس تبعا للفرائض كالعيد ونحوه، فالمناسب التعليل بعدم وروده في السنة.

کفایت المفتی (51/3) میں ہے:

سوال:دفع وباء کے لیے اذان دینا جائز ہے یا نہیں ؟ تنہا یا گروہ کے ساتھ مسجد میں یا گھر میں؟

الجواب:دفع وباء کے لیے اذانیں دینا تنہا یا جمع  ہو کر بطور علاج اور عمل کے مباح ہے سنت یا مستحب نہیں۔

آپ کے مسائل اور ان کا حل (301/3)میں ہے:

سوال: اورنگی ٹاوٴن میں نہتے لوگوں پر دہشت پسندوں کا خوف کچھ اتنا غالب آیا اور خوف و ہراس اس قدر غالب ہوا کہ تمام محلہ اللہ تعالیٰ سے مدد پکارنے لگا، اور تقریباً رات کے گیارہ بجے تمام مسجدوں سے اذان دی گئی اور اس اذان کی وجہ اس کے سوائے اور کچھ بھی نہ تھی کہ اللہ پاک اپنے فضل و کرم سے اس ناگہانی مصیبت میں لوگوں کی مدد فرمائیں، مسجدوں کی مائک اس لئے استعمال کی گئی تاکہ آواز دُور دُور تک جائے، اور دہشت پسندوں کے دِل لرزجائیں۔ رحمانیہ مسجد اورنگی ٹاوٴن کے امام کا کہنا ہے کہ یہ غلط حرکت ہے، اور اذان کے بعد نماز جماعت فرض ہے، جبکہ تمام لوگ جانتے تھے کہ یہ نماز کا کوئی وقت نہ تھا، اس فعل سے کیا حرج واقع ہوا؟ مشورہ دے کر ممنون فرمائیں اس قسم کی ناگہانی بلا و مصیبت روز نازل نہیں ہوتی اس لئے اس کے رواج بن جانے کا کوئی جواز نہیں ہے۔

جواب: علامہ شامی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ: خیرالدین رملی کے حاشیہ بحر میں ہے کہ میں نے شافعیہ کی کتابوں میں دیکھا ہے کہ نماز کے علاوہ بھی بعض مواقع میں اذان مسنون ہے، مثلاً: نومولود کے کان میں، پریشان، مرگی زدہ، غصّے میں بھرے ہوئے اور بدخلق انسان یا چوپائے کے کان میں، کسی لشکر کے حملے کے وقت، آگ لگ جانے کے موقع پر (شامی حاشیہ درمختار ج:۱ ص:۳۸۵)، خیرالدین رملی کی اس عبارت سے معلوم ہوا کہ دہشت پسندوں کے حملے کے موقع پر اذان کہنا حنفیہ کی کتابوں میں تو کہیں مذکور نہیں، البتہ شافعیہ کی کتابوں میں اس کو مستحب لکھا ہے، اس لئے ایسی پریشانی کے موقع پر اذان دینے کی ہم ترغیب تو نہیں دیں گے، لیکن اگر کوئی دیتا ہے تو ہم اس کو ”بالکل غلط حرکت“ بھی نہیں کہیں گے، البتہ نومولود کے کان میں اذان کہنا احادیث سے ثابت ہے، اور فقہِ حنفی میں بھی اس کی تصریح ہے، اذان اگر نماز کے لئے دی جائے، لیکن بے وقت دی جائے تب بھی اس سے نماز فرض نہیں ہوتی، بلکہ نماز کا وقت آنے پر اذان کے اعادہ کا حکم دیا جائے گا، کیونکہ بے وقت کی اذان کالعدم ہے۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved