• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

اذان کے متعلق چند مسائل

استفتاء

1۔اذان اور اقامت میں  حي على الصلاۃ، حی على الفلاح، کہتے ہوئے دائیں اور بائیں دیکھنا آج کے زمانے میں کیسا ہے ؟

2 ۔کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اذان دی ہے؟

3 ۔پہلے زمانے میں آواز دور تک پہنچانے کے لیے کانوں میں انگلیاں ڈالتے تھے آج کل  لاؤڈاسپیکر ہیں کیا پھر بھی کانوں میں انگلیاں ڈالیں گے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔اذان  میں حي على الصلاۃ ,حي على الفلاح ,پر دائیں بائیں چہرہ پھیر نا  مطلقا سنت ہے اس میں زمانے کا کوئی فرق نہیں اور بعض حضرات نے  اقامت میں بھی حي على الصلاۃ,حي على الفلاح ,پر دائیں بائیں چہرہ پھیرنے کو مستحب لکھا ہے تاہم اس کا توارث نہیں ہے اس لیے اس پر عمل نہ بھی ہو  توپھر بھی کچھ حرج نہیں۔

فتاوی شامی (66/2)میں ہے:

( ويلتفت فيه ) وكذا فيها مطلقا وقيل إن المحل متسعا ( يمینا ويسارا ) فقط لئلا يستدبر القبلة ( بصلاة وفلاح ) ولو وحده أو لمولود لأنه سنة الأذان مطلقا۔

بحر الرائق (446/1) میں ہے:

قوله (والاقامة مثله) أي مثل الاذان في كونه سنة الفرائض فقط ۔۔ويدخل في المثلية تحويل وجهه بالصلاة والفلاح فيها كالأذان ورفع الصوت بها  كما صرح به في القنية۔۔

احسن الفتاوی (293/2)میں ہے :

سوال :لاؤڈ اسپیکر پر اذان دیتے وقت بھی دائیں بائیں طرف منہ موڑنا  ضروری ہے۔

الجواب :حي على الصلاۃ،اورحي على الفلاح ،کہتے وقت دائیں اور بائیں جانب التفات اذان اور اقامت میں بہرحال سنت ہے  حتی کے بچے کے کان میں اذان دیتے وقت بھی التفات مسنون ہے  ۔

مسائل بہشتی زیور (1/155) میں ہے :

اذان میں حي على الصلاۃ،کہتے وقت دائیں طرف کومنہ پھیر نا اور حي على الفلاح ،کہتے وقت بائیں طرف منہ پھیرنا سنت ہے خواہ وہ اذان نماز کی ہو یا نومولود کے کان میں ہو یا کسی اور چیز کی ہو مگر سینہ اور قدم قبلہ سے پھر نے نہ پائے۔

مسائل بہشتی زیور(149/1) میں ہے :

اذان اور اقامت میں فرق:

اقامت میں حی علی الصلاۃ،اور حي على الفلاح ،کہتے وقت دائیں بائیں جانب منہ پھیرنا بھی نہیں اگرچہ بعض فقہاء نے اقامت میں بھی پھیر نے کو کہا ہے ۔

2۔اگرچہ بعض حضرات نے یہ بات ذکر کی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر میں ایک مرتبہ اذان دی ہے لیکن

عدم ثبوت  كے قائل حضرات اس حدیث کا مطلب یہ بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سفر کے موقع پر اذان نہیں دی بلکہ حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ کو اذان دینے کا حکم دیا تھا چونکہ حکم حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے  دیا تھا اس لئے اذان کی نسبت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کردی گئی   لہذاراجح یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اذان دینا ثابت نہیں ۔

فتح الباری(79/2) میں ہے:

ومما كثر السؤال عنه هل باشر النبي صلى الله عليه و سلم الأذان بنفسه وقد وقع عند السهيلي أن النبي صلى الله عليه و سلم أذن في سفر وصلى بأصحابه وهم على رواحلهم السماء من فوقهم والبلة من أسفلهم أخرجه الترمذي من طريق تدور على عمر بن الرماح يرفعه إلى أبي هريرة أه وليس هو من حديث أبي هريرة وإنما هو من حديث يعلى بن مرة وكذا جزم النووي بان النبي صلى الله عليه و سلم أذن مرة في السفر وعزاه للترمذى وقواه ولكن وجدناه في مسند أحمد من الوجه الذي أخرجه الترمذي ولفظه فأمر بلالا فأذن فعرف أن في رواية الترمذي اختصارا وأن معنى قوله أذن أمر بلالا به كما يقال أعطى الخليفة العالم الفلانى ألفا وإنما باشر العطاء غيره ونسب للخليفة لكونه آمرا به

خیر الخبر فی اذان خیر البشر لمولانا عبد الحئ لکھنوی صاحب (16) میں ہے:

اقول🙁القائلهو اللَّكْنَوِيّ رحمه الله.)

وباللهِ التَّوفيق، أقولُ ومنهُ الوصولُ إلى التَّحقيق، إنَّما الخلافُ في أذانِ الصَّلاة، هل باشَرَ بهِ رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وعلى آلهِ وسلَّم أم لا؟وأمَّا مطلقُ الأذانِ فلا شكَّ في مباشرتِهِ بهِ لما ثَبَتَ في روايةِ أبي داودَ، والتِّرْمِذِيّ، وصحَّحَه، وأحمدَ عن أبي رافع قال: (رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَعَلَى آلِهِ وَسَلَّمَ أَذَّنَ فِي أُذُنِ الحَسَنِ بنِ عَلَيٍّ حِينَ وَلَدَتْهُ فَاطِمَة )ووقعَ في روايةِ أحمد: (الحُسَين) مصغّرا ۔فعلى هذا لو حملتْ روايةُ سعيدِ بن منصورٍ على هذا الأذانِ لم يَبْعُد،

بل الظَّاهرُ هو هذا، فإنَّهُ وَقَعَ فيه، فقال: (حيَّ على الفلاح)، ولو كانَ أذانَ الصَّلاةِ لم يحتجْ إلى هذا التَّصريح؛ لأنَّ الأذانَ لا يكونُ بدونِ الحيعلتين، نعم؛ يُتًوهَّمُ عدمهما في أذانِ المولود؛ لعدمِ الطَّلبِ فيه للصَّلاة، فصرَّحَ الرَّاوي بذِلك، فلم يبقَ بقولِ السُّيُوطِيِّ هذه روايةٌ لا تقبلُ التَّأويلَ مجال.

وبالجملةِ مباشرةُ الرَّسولِ صلَّى اللهُ عليهِ وعلى آلهِ وسلَّم بالأذانِ في أُذُنِ المولودِ ثابتٌ قطعاً، وأمَّا مباشرتُهُ بأذانِ الصَّلاةِ فنحنُ نتوقَّفُ إلى الآن في ذلك؛ لأنَّكَ قد عرفتَ حالَ روايةِ التِّرْمِذِيِّ التي هي نصٌّ فيه، وأمَّا روايةُ سعيدِ بن منصورٍ فليست نصَّاً فيه، فاحفظهُ لعلَّ الله يحدثُ بعدَ ذلك أمراً.

3۔موجودہ زمانے میں بھی اذان دیتے ہوئے کانوں میں انگلیاں رکھنا مستحب ہے۔

فتاوی شامی (67/2) میں ہے:

 ( ويجعل ) ندبا ( أصبعيه في ) صماخ ( أذنيه ) فأذانه بدونه حسن وبه أحسن۔

مسائل بہشتی زیور (1/155) میں ہے :

اذان کہتے وقت کانوں کے سوراخوں کو انگلیوں سے بند کرنا مستحب ہے۔

احسن الفتاوی (284/2) میں ہے:

سوال :کیا اذان دینے والے کے لئے ضروری ہے کہ اذان دیتے وقت کانوں میں انگلیاں ڈالے کیا ایسا کرنا سنت ہے؟

الجواب :اذان کے وقت انگلیاں کانوں میں رکھنا مستحب ہے ضروری نہیں۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved