- فتوی نمبر: 28-303
- تاریخ: 19 اگست 2022
- عنوانات: اہم سوالات
استفتاء
***میں ایک کاسمیٹک کا اسٹور ہےجہاں کاسمیٹک سے متعلق سامان کی ہول سیل اور ریٹیل خرید و فروخت کی جاتی ہے۔
T.S جو مال خریدتا ہے وہ کبھی کبھار واپس بھی کرنا پڑجاتا ہے خریدے ہوئے مال کی واپسی کی ایک صورت یہ ہوتی ہے کہ T.S نے ایک پارٹی سے مال کی خریداری کر لی پھر وہی مال دوسری پارٹی نے کم ریٹ پر T.S کو دے دیا تو اس صورت میں پہلی پارٹی سے بات کی جاتی ہے کہ ہمیں اس ریٹ پر یہ آئٹم ملی ہے، اگر آپ اس ریٹ پر ہمیں مال دیتے ہیں تو ٹھیک ،ورنہ آپ مال واپس لے لیں، اگر وہ مان جاتے ہیں تو T.S ان کا مال لے لیتے ہیں، ورنہ T.S کی طرف سے ان سے معذرت کرلی جاتی ہے۔
مذکورہ طریقہ سے مال واپس کرنے کا کیا حکم ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
اگر پہلی پارٹی سے سودا حتمی ہوچکا ہو تو انکی رضامندی کے بغیر قیمت میں کمی پیشی کرنا یا سودا ختم کرنا جائز نہیں ،اور اگر پہلی پارٹی سے سودا حتمی نہ ہوا ہو صرف بات چیت چل رہی ہوتو یک طرفہ طور پر سودا ختم کیا جاسکتا ہےاور باہمی رضامندی سے قیمت میں کمی پیشی بھی کی جاسکتی ہے ۔
فی الاختیار(۲/۱۱)
الاقالۃ جائزۃ لقولہ علیہ الصلاۃ والسلام من أقال نادما أقال االلہ عثرتہ یوم القیامۃ ولأن للناس حاجۃ إلیہا کحاجتھم الی البیع فتشرع۔
الدر مع الرد(۵/۱۲۱)کتاب البیوع،الاقالۃ
لأن من شرائطھا اتحاد المجلس ورضا المتعاقدین۔
فقہ البیوع:(۱/۵۲)
إذا وجد احد الشطرین من احد المتبایعین فلآخر خیار القبول ولہ خیار الرجوع قبل قبول الآخر:لما روی عن أبی ھریرۃ عن النبیﷺ أنہ قال:البیعان بالخیار مالم یتفرقا عن بیعھما والخیار الثابت لھما قبل التفرق عن بیعھما ھو خیار القبول وخیار الرجوع ولأن احد الشطرین لو لزم قبل وجود الآخر،لکان صاحبہ مجبورا علہ ذلک الشطر،وھذا لایجوز۔
الھندیۃ(۳/۱۷۳)
حط بعض الثمن صحیح ویلتحق بأصل العقد عندنا کاالزیادۃ سواءبقی محلا للمقابلۃوقت الحط أو لم یبق محلا،کذا فی المحیط،إذاوھب بعض الثمن عن المشتری قبل القبض أو أبرہ عن بعض الثمن فھو حط،فإن کان البائع قد قبض الثمن أو أبرہ عن بعض الثمن فھو حط،فإن کان البائع قد قبض الثمن ثم حط البعض أو وھب بأن قال وھبت منک بعض الثمن أو قال حططت بعض الثمن عنک صح ووجب علی البائع رد مثل ذلک علی المشتری۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved