• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

فارسیج ((Forsage) کمپنی کے جواز سے متعلق ایک فتوی اور اس کا جواب

استفتاء

ہمیں آپ سے فارسیج کمپنی کے بلاک چین کے متعلق شرعی حکم مطلوب ہے؟ کہ آیا فارسیج کمپنی کے ساتھ آن لائن کام کرنا درست ہے؟ کیا فارسیج  کمپنی میں ٹیم بنانا اور ان سے کمیشن لینا جائز ہے اور اس بلاک چین کے بارے میں کیا حکم ہے؟ ہمیں دراصل یہی بتایا گیا ہے کہ یہ کام جائز ہے کیوں کہ اس میں پیرامڈ  سکیم نہیں ہے۔۔ (یعنی نیچے  کام کرنے والوں سے اوپر والوں کو کچھ نہیں ملتا، ہر  ممبر کواپنی کمائی/ کمیشن کے لیے ذاتی ممبر بنانا ضروری ہے یعنی ممبر بنائے بنا کمائی نہیں ہوسکتی۔

یو ٹیوب پر ایک عالم دین ہیں انکا بھی یہی کہنا  ہے کہ یہ کام جائز ہے، جبکہ مفتی طارق مسعود اس کے بارے میں حلال یا حرام کچھ نہیں کہتے برائے کرم رہنمائی فرما ئیں ۔ہمارا سوال یہ ہے کہ کیا  یہ  فار سیج بلاک چین کا کاروبار جائز ہے؟

الجواب :ہماری معلومات کے مطابق بلاک چین پر چلنی والی کمپنی کے ساتھ کاروبار کرنا بالکل جائز ہے کیونکہ یہ ایک آٹو میٹک  سسٹم  ہوتا ہے یہاں جوائٹنگ  رجسٹریشن کی رقم وغیرہ سبھی کمپنی کے مقرر کردہ ہیں تو اس میں دھوکہ دہی نہیں کی جاسکتی اسی وجہ سے یہ درست ہے جیسا کہ اس کمپنی میں صرف آپ کے ڈائریکٹ ممبر اور انڈائریکٹ ممبر کے علاوہ کسی بھی نمبر سے آپکو کمیشن نہیں ملتا  یعنی اگر آپ کو کمیشن لینا ہے تو آپ کو ممبر بناتے رہنا ہوگا اور ڈائریکٹ ٹیم سے بھی بنواتے رہنا ہوگا تو یہ   محنت طلب کام ہے۔اس کاروبار میں پیرامڈ کی کوئی صورت نہیں لہذا افارسیج کمپنی میں کام کرنا اور کمیشن لینا مکمل جائز ہے۔

کیا یہ فتوٰی جامعہ بنوریہ کا  ہے یا جعلی ہے ؟ اگر بنوریہ کا ہے تو اس کا لکھا ہواجواب دے دیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

اس کمپنی میں سرمایہ کاری کرنے والے حضرات اور یوٹیوب پر فارسیج کی پرموشن ویڈیوز سے لی گئی معلومات کے مطابق مذکورہ کمپنی ملٹی لیول مارکیٹنگ  کے طریقے پر کاروبار کرتی ہے لہذا  ہمیں سوال میں مذکور فتوے سے اتفاق نہیں ہے اور اس  کمپنی سے کمائی کرنا جائز نہیں ہے۔

نوٹ : ، مجیب نے متعلقہ دارالافتاء (دارالافتاءوالقضاء، جامعہ بنوریہ عالمیہ) سے رابطہ  کیا  اور تصدیق کے لیے مذکورہ فتوٰی بھیجا، وہاں سے  معلوم ہوا ہے کہ یہ فتوٰی جعلی ہے اور  ان کے ادارے  سے ایسا کوئی فتوی جاری نہیں کیا گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved