• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

گروی پرمکان دینا

استفتاء

کیا فرماتےہیں مفتیان کرام اس مسئلےکے بارے میں کہ گروی  پرمکان دینا کرایہ کے ساتھ جائز ہے؟

وضاحت:مکان کا اصل کرایہ کتنا ہے ،اور گروی کی صورت میں کتنے کرایہ پردینا ہے؟

جواب وضاحت:مکا ن کااصل کرایہ (دس ہزارروپے)ہے،اور گروی کی صورت میں (دوہزار سے کم روپے)پردیناہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مروجہ  گروی کی صورت  میں اصل مالک کوجورقم دی جاتی ہے اس کی حیثیت قرض کی بنتی ہے اورکرایہ میں کمی اسی قرض کی بنیاد پر کی جاتی ہے جبکہ قرض کی بنیاد پرکسی طرح کا بھی نفع حاصل کرناسود اور ناجائز ہے اور گروی پر گھر دینے والا اس کا ذریعہ بنتا ہے اس لیے عام حالات میں گروی پر گھر دینا جائز نہیں، البتہ اگرگروی پر دینے والا سخت مجبور  ہو کہ اس کے علاوہ  قرض نہ ملتا  ہو، اور اسراف وتنعم کے لئے گروی  رکھ کر روپیہ نہ لیتا ہو، بلکہ ضرورت  ومجبوری کی وجہ سے روپیہ قرض لینا چاہتا ہو تواس صورت میں امید ہے کہ  گروی  رکھنے والا گناہ گار نہ ہوگا۔تاہم مکان کو استعمال کرنے والا بہرصورت گناہ گار ہوگا۔

بدائع الصنائع(7/395)میں ہے:

وأما الذي يرجع إلى نفس القرض فهو أن لا يكون فيه جر منفعة فإن كان لم يجز نحو ما إذا أقرضه دراهم غلة على أن يرد عليه صحاحا أو أقرضه وشرط شرطا له فيه منفعة لما روي عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه نهى عن قرض جر نفعا ولأن الزيادة المشروطة تشبه الربا لأنها فضل لا يقابله عوض والتحرز عن حقيقة الربا وعن شبهة الربا واجب۔

حاشیہ ابن عابدین(413/7)میں ہے:

كل قرض جرنفعاحرام،فكره للمرتهن سكنى المرهونة بإذن الراهن۔

تکملۃ حاشیۃ ردالمحتار(41/1)میں ہے:

والغالب من أحوال الناس أنهم إنما يريدون عند الدفع الانتفاع، ولولاه لما أعطاه الدارهم، وهذا بمنزلة الشرط، لان المعروف كالمشروط وهو مما يعنين المنع، والله تعالى أعلم۔

امداد الاحکام (510/3)میں ہے:

سوال:۔ کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین مسئلہ ذیل میں کہ ہمارے یہاں کا دستور ہے کہ زمیندار یا کاشتکار اپنا کھیت کسی مہاجن کے یہاں رہن رکھ دیتا ہے، اور شرطیہ کرتا ہے کہ روپیہ کے عوض مہاجن کھیت جوتے ، بوئے اور کھیت مالگذاری دیا کرے، اور کھیت کا کل پیداوار مہاجن لیا کرے، اور زمیندار یا کاشتکار سوائے مال گذاری کے کچھ نہ پائے گا، اور نہ روپیہ کا سود مہاجن کو دینا ہوگا، آیا اس قسم کا لین دین شرعاً جائز ہے یا نہیں؟ اس کو صاف صاف مع دلیل کے لکھ دیں۔

الجواب:قال فی الدر(۱): لا انتفاع به مطلقا…… إلا بإذن  کل للآخر  وقیل لا یحل للمرتهن لأنه ربا  وقیل إن شرطه کان ربا وإلا لا۔ وفی الأشباه والجواهر : أباح الراهن للمرتهن أکل الثمار أو سکنی الدار أو لبن الشاة المرهونة فأكله لم یضمن وله منعه،قال العلامة الشامی: قال فی المنح : وعن عبد الله بن محمد بن أسلم السمرقندی وکان من کبار علماء سمرقند: اأنه لا یحل له أن ینتفع بشیٔ منه بوجه من الوجوه وإن أذن له الراهن لانه أذله  فی الربا لانه یستوفی دينه کاملا فتبقی له المنفعة فضلا فتکون ربا وهذا أمر عظیم۔قلت: وهذا مخالف لعامةالمعتبرات من أنه یحل بالاذن إلا أن یحمل علی الديانة وما فی المعتبرات علی الحکم۔ثم رأیت فی جواهر الفتاوی: إذا کان مشروطا صار قرضا فيه منفعةوهو ربا وإلا فلا بأس به  ما فی المنح ملخصا، واقره ابنه الشیخ صالح، وتعقبنه الحموی بان ماکان ربا لايظهر فيه فرق بین الديانة والقضاء علی أنه لاحاجة الی التوفیق بعد أن الفتویٰ علی ماتقدم ، أی من أنه یباح۔ أقول: ما فی الجواهر یصلح للتوفیق وهووجيه وذکروا نظيره فیما لو أهدي المستقرض للمقرض: إن کانت بشرط كره وإلا فلا۔وما نقله الشارح عن الجوهر أیضا من قوله:’’ لا یضمن‘‘ یفید أنه لیس بربا۔

لان الربا مضمون فیحمل علی غیر المشروط وما فی الاشباه من الكرهة علی المشروط ویؤیدہ قول الشارح الآتی آخر الرهن: إن التعلیل بأنه ربا یفید أن الكراهة تحريمىة فتأمل۔وإذا کان مشروطا ضمن کما أفتی به فی الخيرية فیمن رهن شجر زیتون علی أن یأکل المرتهن ثمرته نظیر صبرہ  بالدین۔قال ط: قلت: والغالب من أحوال الناس أنهم إنما یریدون عند الدفع الانتفاع ،ولولاه لما أعطاه الدراهم وهذا بمنزلةالشرط لان المعروف کالمشروط وهو مما یعنین المنع والله تعالی أعلم ۔

ان نصوص سے معلوم ہوا کہ رہن کی جو صورت سوال میں درج ہے یہ معاملہ ربوا میں داخل ہے۔ و لعن النبی صلی الله عليه وسلم اٰکل الربا وموكله۔پس اس صورت میں رہن رکھنا کسی مسلمان کو جائز نہیں ، البتہ اگر سخت مضطر ہو کہ اس کے بدون چارہ نہ ہو، اور اسراف وتنعم کے لئے رہن رکھ کر روپیہ نہ لیتا ہو، بلکہ ضرورت شرعیہ ومجبوری کی وجہ سے روپیہ قرض لینا چاہتا ہو تو شاید رہن رکھنے والا گناہ سے بچ جائے۔ باقی مرتہن کو رہن سے نفع حاصل کرنا یہ تو کسی حال میں درست نہیں۔ففی الاشباہ والنظائر۔ اخر القاعدۃ الخامسة من الفن الاول، ما نصه: وفی القنية والبغية، ، یجوز للمحتاج الاستقراض بالربح، وفی الحموی نحو ذلک۔ ا اور بہتر یہ ہے کہ ایسی صورت میں بیع بالوفا کا طریقہ اختیار کرلیا جائے، جس کے جواز پر متأخرین کا فتویٰ ہے۔ واللہ اعلم

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved