- فتوی نمبر: 20-198
- تاریخ: 26 مئی 2024
- عنوانات: مالی معاملات > اجارہ و کرایہ داری
استفتاء
ایک آدمی دو بکریاں خرید کر دوسرے آدمی کو دیتا ہے کہ آپ آدھ پر رکھ لو اور آدھ عرف عام میں یہ ہے کہ بکریوں کے پھل آدھے مالک کے اور آدھے پالنے والے کے یعنی بکریوں کا مالک زید ہے اور بکر کو ان کی دیکھ بھال کے لیے دیتا ہے اس طرح کہ بکریاں جب بچے دیں گی تو وہ بچے زید اور بکر کے درمیان آدھے آدھے تقسیم ہوں گے۔کیا یہ معاملہ جائز ہے؟اگر ناجائز ہے تو اس کی جائز صورت کیا ہوگی؟
وضاحت مطلوب:”بچے آدھے آدھے ہوں گے”سے کیا مراد ہےیعنی اگر ایک بچہ ہو تو کیا صورت ہوگی؟
جواب:مطلب یہ ہے کہ بچہ ایک ہویا زیادہ مالک اور جس کو بکریاں رکھنے کے لیے دی ہے ۔دونوں کے آدھے آدھے ہوں گے۔مثلا اگر بچہ ایک ہوگا تو پھر جب فروخت ہوگا تو قیمت دونوں میں تقسیم ہوگی۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت حنفیہ کے نزدیک جائز نہیں البتہ حنابلہ کی ایک روایت کے مطابق اس طرح کرنا جائز ہے اور آج کل چونکہ اس کا رواج ہے اس لیے حنابلہ کی اس روایت پر عمل کرنے کی گنجائش ہے۔
بنایہ شرح ہدایہ (10/572)میں ہے:
(بخلاف دفع الغنم والدجاج ودود القز معاملة بنصف الزوائد(من حيث لايجوز…واراد بالزوائد الاولادفي الغنم،،والافرح في الدجاج.
ہندیہ (7/467)میں ہے:
دفع بقرة إلى رجل على أن يعلفها وما يكون من اللبن والسمن بينهما أنصافا فالإجارة فاسدة.
الشرح الكبير لابن قدامہ(19/6) میں ہے :
ولو استأجر راعيا لغنم بثلث درها وصوفها وشعرها ونسلها أو نصفه أو جميعه لم يجز نص عليه أحمد في رواية سعيد بن محمد النسائي لان الاجر غير معلوم ولا يصلح عوضا في البيع، قال اسمعيل بن سعيد سألت أحمد عن الرجل يدفع البقرة إلى الرجل على أن يعلفها ويحفظها وولدها بينهما فقال اكره ذلك وبه قال ابو ايوب وأبو خيثمة ولا أعلم فيه مخالفا لان العوض معدوم مجهول لا يدرى ا يوجد ام لا، والاصل عدمه ولا يصلح أن يكون ثمنا، فان قيل فقد جوزتم دفع الدابة إلى من يعمل عليها بنصف مغلها قلنا انما جاز ثم تشبيها بالمضاربة [لعل الصواب المزارعة كما في مطالب أولي النهي: 3/594، و المغني: 5/8. ناقل] ولانها عين تنمي بالعمل فجاز اشتراط جزء من النماء كالمضاربة والمساقاة [لعل الصواب المزارعة بدل كما في مطالب أولي النهي: 3/594، و المغني: 5/8. ناقل] وفي مسئلتنا لا يمكن ذلك لان النماء الحاصل في الغنم لا يقف حصوله على عمله فيها فلم يمكن الحاقه بذلك.
وذكر صاحب المحرر(1) رواية أخرى انه يجوز بناء على ما إذا دفع دابته أو عبده بجزء من كسبه والاول ظاهر المذهب لما ذكرنا من الفرق، وعلى قياس ذلك إذا دفع نحله إلى من يقوم عليه بجزء من عسله وشمعه يخرج على الروايتين فان اكتراه على رعيها مدة معلومة بجزء معلوم منها صح لان العمل والمدة والاجر معلوم فصح كما لو جعل الاجر دراهم ويكون النماء الحاصل بينهما بحكم الملك لانه ملك الجزء المجعول له منها في الحال فكان له نماؤه كما لو اشتراه.
(1) هو مجد الدين أبو البركات عبد السلام بن عبد الله بن أبي القاسم بن محمد بن تيمية [غير ابن تيمية المعروف] قال الذهبي الحافظ: كان الشيخ مجد الدين معدوم النظير في زمانه، رأساً في الفقه وأصوله، بارعاً في الحديث ومعانيه، له اليد الطولى في معرفة القرآن والتفسير، وصنف التصانيف، واشتهر اسمه، وبَعُدَ صيته. وكان فرد زمانه في معرفة المذهب، مفرط الذكاء، متين الديانة، كبير الشأن.
© Copyright 2024, All Rights Reserved