• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

تشہد میں انگلی کو حرکت دینا

استفتاء

محترم! دورانِ نماز تشہد کی انگلی کی حرکت کے بارے میں حدیث کی رو سے کیاحکم ہے؟ کیا حرکت دینی ہے یا  ساکن رکھنی ہے؟ اس کے حوالے سے رہنمائی فرمائیں.

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

حدیث میں تشہد کے وقت انگلی کو حرکت دینے کا بھی ذکر ہے اور حرکت نہ دینے کا بھی ذکر ہے ۔ ان دونوں میں تطبیق یہ ہے کہ جس حدیث میں حرکت کا ذکر ہے اس سے اشارہ کرنے کے لیے انگلی کو اٹھانے اور واپس رکھنے کی حرکت مراد  ہے اور جس حدیث میں حرکت نہ دینے کا ذکر ہے اس سے مراد  مسلسل حرکت نہ دینا ہے۔

سنن  ابی داؤد(رقم الحدیث:989)، سنن النسائی (رقم الحدیث:1270) میں ہے:

عن عبد الله بن الزبير قال كان النبي صلى الله عليه وسلم ‌يشير ‌بأصبعه إذا دعا، ولا يحركها.

ترجمہ: حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ جب تشہد پڑھتے تو اپنی انگشت شہادت سے اشارہ کرتے اور اس کو حرکت نہ دیتے۔

سنن النسائى(رقم الحديث:889)میں ہے:

عن وائل بن حجر ……… وفيه ثم قبض ثلاثة من أصابعه ‌وحلق ‌حلقة، ثم رفع إصبعه فرأيته يحركها يدعو بها

ترجمہ: حضرت وائل ؓ کی روایت میں ہے کہ پھر آپﷺ نے تین انگلیوں کو ملا کر حلقہ بنایا پھر ایک کو اٹھایا  تو  میں نے آپﷺ کو اس انگلی کو دُعا (تشہد) کے وقت حرکت دیتے  ہوئے دیکھا۔

بذل المجہود(2/127) میں امام بیہقیؒ کا قول  مذکورے:

روى الخبرين البيهقي وصححهما، ثم قال: ويحتمل أن يكون مراده بالتحريك الإشارة بها لا ‌تكرير ‌تحريكها فيكون موافقا لرواية ابن الزبير رضى الله عنه [السنن الكبرى للبيهقي، رقم الحديث:2787]

مشہور محدث  امام بیہقیؒ  نے فرمایا کہ حضرت وائل ؓ کی  حدیث میں حرکت دینے سے مراد  انگلی سے اشارہ کرنے کی حرکت ہے انگلی کو بار بار حرکت دینا مرادنہیں ، اس طرح  یہ حدیث بھی حضرت ابن زبیر ؓ کی حدیث کے موافق ہوجائے گی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم               

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved