• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

نابالغ بچے کے اخراجات کس پر لازم ہیں؟

استفتاء

مفتی صاحب  سات سال تک  بچہ اور نو سال تک بچی کی پرورش کا حق والدہ کو ہوتا ہے اور اس مدت تک نان نفقہ کی ذمہ داری والد پر ہوتی ہے، اس مدت کے بعد اولاد کو اختیار ہوتا ہے کہ اب وہ والدہ کے پاس رہیں یا والد کے پاس ، لیکن اگر بچے والدہ کے پاس رہنے کو اختیار کرتے ہیں ، اور والدہ نے آگے دوسری شادی بھی کر لی ہے تو کیا اب بھی والد پر اولاد کے نان نفقہ کی ذمہ داری واجب ہوگی یا نہیں؟

وضاحت مطلوب ہے: یہ معلوماتی سوال ہے یا کوئی  واقعہ پیش آیا ہے؟ اگر کوئی واقعہ پیش آیا ہے تو اس کی تفصیل لکھ کر بھیجیں۔

جواب وضاحت: واقعہ پیش آیا ہے  جس کی تفصیل یہ ہے  کہ میاں بیوی میں طلاق  ہوچکی ہے اور بیوی عدت میں ہے، ان کا تین ماہ کا ایک لڑکا  ہے جوکہ والدہ کے پاس ہے تو اگر عدت  کے بعد وہ عورت کہیں شادی کرلے تو کیا اس بچے کا خرچہ پھر بھی والد پر آئے گا؟ اسی طرح اگر وہ عورت عدت کے بعد کہیں شادی نہیں کرتی تو بچے کا نان نفقہ کب تک والد کے ذمے رہے گا؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں بچے کی ماں عدت کے بعد کہیں اور نکاح کرے یا نہ کرے دونوں صورتوں میں  بچے کے بالغ ہونے تک اس کا خرچہ والد کے ذمے ہے اور جب وہ بالغ ہوجائے گا تو والد کے ذمے اس کا خرچہ نہ رہے گا کیونکہ وہ  خود اس وقت کما سکے گا، البتہ بالغ ہونے کے بعد  کسی خاص وجہ سے بچہ کمائی نہ کرسکتا ہو تو اس کا مسئلہ اس وقت پوچھ لیا جائے۔

 

المبسوط للسرخسی (5/201) میں ہے:

ویجبر الرجل على نفقة أولاد الصغار

قوله: أولاد الصغار ……. وإن ‌كانوا ‌ذكورا بالغين لم يجبر الأب على الإنفاق عليهم لقدرتهم على الكسب، إلا من كان منهم زمنا، أو أعمى، أو مقعدا، أو أشل اليدين لا ينتفع بهما، أو مفلوجا، أو معتوها فحينئذ تجب النفقة على الوالد لعجز المنفق عليه عن الكسب.

ہندیہ (3/34) میں ہے:

ولا يجب علىه ‌نفقة ‌الذكور الكبار إلا أن يكون الولد عاجزا عن الكسب لزمانة فتكون نفقته على والده ومن يقدر على العمل لكن لا يحسن العمل فهوبمنزلة العاجز لان من لا يحسن العمل لا يستأجره الناس.

قال الشيخ الامام شمس الأئمة الحلوانى رحمه الله وقد لا يقدر الرجل الصحيح على الكسب لحرفة أو لكونه من اهل البيتوتات فإذا كان هكذا كانت نفقته على والده وإن كانت له قوة العمل.      

مجمع الانہر (3/194) میں ہے:

(ونفقة البنت بالغة والابن) البالغ (زمنا) بفتح الزاي وكسر الميم أي الذي طال مرضه زمانا كما في المغرب أو الذي لا يمشي على رجليه كما في المذهب وكذا أعمى وأشل وغيرهما فقير تجب (على الأب خاصة وبه يفتى) هذا ظاهر الرواية

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم               

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved