• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

میل وومز کیڑے کی بیع کا حکم

استفتاء

حضرت میل وومز  کے نام  سے ایک کیڑا ہے جن کی افزائش  بذریعہ فارم   ہاؤس  چوکر اور سبزی  سے کی جاتی ہے ۔ان کیڑوں کو بطور پرندوں کی  خوراک کے  بیچا بھی جاتا ہے اسی طرح ان  کو بیرون ملک انسان  بھی بطور  خوراک استعمال کرتے ہیں،ان کیڑوں کو زندہ اور مردہ دونوں حالتوں میں بیچا  جاتا ہے اسی طرح ان کیڑوں سے تیل کشید کر کے ادویہ سازی میں استعمال کیا جاتا ہے   اور جو چوکر بچ جاتی ہے اسے بطور کھاد بیچ دیا جاتا ہے ۔اب پوچھنا یہ ہے کہ:

1۔بطور کاروبار اس کام کو اختیار کرنا کیسا ہے؟

2۔کیڑوں کو بطور انسانی خوراک ایکسپورٹ کیا جا سکتا ہے؟

3۔ان سے تیل کشید کر کے ادویہ سازوں کو بیچنا درست ہے؟

4۔کیڑوں کو زندہ و مردہ حالت میں بیچنا کیسا ہے؟

وضاحت مطلوب ہے: (1)ان کیڑوں کو کونسے ممالک میں ایکسپورٹ کیا جاتا ہے؟ (2) ان کیڑوں کی بطور انسانی خوراک  ایکسپورٹ کسی خاص پیکنگ میں ہوتی ہے یا  عمومی پیکنگ میں جو انسان اور جانور دونوں کے لیے استعمال ہو سکے؟

جواب وضاحت(1): ان میل وومز کیڑوں کو یو ۔اے۔ای،سعودیہ عرب،کویت، بحرین،عمان، کینیا  میں ایکسپورٹ کیا جاتا ہے البتہ دوسرے غیر اسلامی  ممالک بھی انہیں خرید کر لے جاتے ہیں۔

جواب وضاحت(2): میل وومز کو یوں نام لیکر ایکسپورٹ نہیں کیا جاتا کہ یہ بطور انسانی  خوراک استعمال ہوں گے یا جانوروں کی خوراک میں  بلکہ ایک ہی پیکنگ میں انہیں ایکسپورٹ کیا جاتا ہے جو دونوں کے لیے استعمال ہوتی ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔اس کام کو بطور کاروبار اختیار کرنے کی گنجائش ہے اگرچہ احتیاط بہتر ہے۔

2۔ کیا جا سکتا ہے  تاہم احتیاط بہتر ہے۔

توجیہ: چونکہ ان کیڑوں  کا پرندوں کی خوراک کے طور پر  بھی استعمال  موجود ہے اور سائل کی  وضاحت کے مطابق ان کی پیکنگ ایسی نہیں ہوتی جو خاص انسانوں کی خوراک کے لیے استعمال ہوتی ہو اس لیے  خریدار کے بارے میں دونوں احتمال ہیں کہ  وہ  انہیں   پرندوں کی خوراک کے طور پر استعمال کرے گا  یا  انسانی خوراک  کے طور پر استعمال کرے گا  اور جب  کسی چیز کا جائز   اور ناجائز دونوں  طرح کا استعمال ہو  اور بیچنے والے  کو اس کا علم نہ ہو  کہ  خریدار  اس کا جائز استعمال کرے گا یا  ناجائز ، تو ایسی صورت میں بیچنے والے کے لیے ایسی چیز کا بیچنا  جائز ہے گو احتیاط بہتر ہے۔

3۔ان کیڑوں سے تیل کشید کر کے ادویہ سازوں کو بیچنا درست ہے ۔

توجیہ:  مذکورہ تیل کا خارجی استعمال بھی ہے جو کہ جائز ہے اور داخلی استعمال بھی ہے جوکہ اگرچہ عام حالات میں جائز نہیں تاہم تداوی کے  لیے اس کی بھی گنجائش ہے اور جب کسی چیز کا جائز اور ناجائز دونوں طرح کا استعمال موجود ہو اور بیچنےوالے کو یہ معلوم نہ ہو کہ خریدار اس کا جائز استعمال کرے گا یا ناجائز، تو ایسی صورت میں بیچنے والے کے لیے ایسی چیز کا  بیچنا  جائز ہے گو احتیاط بہتر ہے۔

4۔ مذکورہ کیڑوں کو زندہ اور مردہ دونوں  حالتوں  میں بیچنا جائز ہے   ۔

توجیہ : زندہ حالت میں بیچنے  کے  جواز کی وجہ  تو وہی ہے جو   ماقبل میں گذر چکی یعنی یہ  کہ ان کا جائز استعمال بھی  موجود ہے اور مردہ حالت میں بیچنے  کے جواز کی وجہ یہ ہے کہ چونکہ کیڑے غیر دموی  ہوتے ہیں لہذا موت کی وجہ  سے ان میں نجاست نہیں آتی  بلکہ یہ پاک ہی رہتے ہیں اور  مردہ حالت میں بھی ان کا جائز استعمال موجود ہے اور مردار کے جو اجزاء پاک ہوں اور ان کا کوئی جائز استعمال بھی ہو تو ان اجزاء کی بیع جائز ہے لہذا ان کی  مردہ حالت میں بھی  بیع جائز ہوگی  جیسا کہ خود  دموی جانوروں میں جن چیزوں میں موت کی وجہ سے نجاست نہیں آتی مثلا ہڈی ،اون ،سینگ وغیرہ  یا اسی طرح اگر شرعی ذبح کے ذریعے جانور میں سے  خون نکا ل دیا گیا ہو  تو وہ  گوشت بھی پاک ہوتا ہے اور اس  کی بیع جائز ہوتی ہے بلکہ  جو کھال موت کی وجہ سے نجس ہوگئی ہو اور بعد میں  اسے دباغت دے دی جائے تو اس کی بیع بھی جائز ہے ۔

تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق (4/ 51)میں ہے:

قال (وجلد الميتة قبل الدبغ) يعني لا يجوز بيعه لما روي أنه – عليه السلام – «نهى عن الانتفاع بجلد الميتة وعصبها» فيما رواه أبو داود وغيره ولأن نجاسته من الرطوبات المتصلة به بأصل الخلقة فصار كلحم الميتة بخلاف الثوب النجس حيث يجوز بيعه؛ لأن نجاسته ليست بأصل الخلقة فلا يمنع من جواز البيع قال (وبعده يباع وينتفع به كعظم الميتة وعصبها وصوفها وقرنها ووبرها) يعني بعد الدباغ يجوز بيعه كما يجوز ‌بيع ‌عظم ‌الميتة إلى آخره؛ لأنه طهر بالدباغ والعظم ونحوه طاهر بأصل الخلقة على ما ذكرنا في كتاب الطهارة فجاز بيعه ولحوم السباع وشحومها وجلودها بعد الذكاة كجلود الميتة بعد الدباغ حتى يجوز بيعها والانتفاع بها غير الأكل لطهارتها بالذكاة إلا جلد الخنزير فإنه نجس العين فلا يطهر بالذكاة ويجوز بيع عظم الفيل والانتفاع به عند أبي حنيفة وأبي يوسف وعند محمد لا يجوز وهو كالخنزير عنده وعندهما كالسباع.

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (5/ 142) میں ہے:

ولا ينعقد ‌بيع جلد الخنزير كيف ما كان؛ لأنه نجس العين بجميع أجزائه، وقيل: إن جلده لا يحتمل الدباغ، وأما ‌عظم ‌الميتة وعصبها، وشعرها، وصوفها، ووبرها، وريشها، وخفها وظلفها، وحافرها فيجوز بيعها، والانتفاع بها – عندنا

النہر الفائق شرح كنز الدقائق(3/ 428) میں ہے:

 (و) لم يجز أيضًا بيع (جلد الميتة قبل الدبغ) للنهي عن الانتفاع بإهاب المينة، وهو اسم لغير المدبوغ كما مر في الطهارة ولا خفاء أن نجاسته من الرطوبات المتصلة بأصل الخلقة فصار كلحم الميتة بخلاف الثوب النجس، والدهن النجس حيث يجوز بيعه لأن نجاسته عارضة فلا يتغير حكم الثوب بها فيه (وبعده يباع وينتفع به) لطهارته»كعظم الميتة وعصبها وصوفها وقرنها ووبرها بالدبغ كما مر قيد بجلد الميتة لأن جلود المذكاة يجوز بيعها لطهارتها بها، ولحوم السباع وشحومها وجلودها بعد الذكاة كجلود الميتة بعد الدبغ فيجوز بيعها والانتفاع بها في غير الأكل في (التجنيس) المختار للفتوى جواز بيع لحم المذبوح من السباع، وكذا الكلب والحمار لأنه طاهر وينتفع به في إطعام سنورة (كعظم الميتة) أي: كما يباع عظم الميتة وينتفع به، (و) كذا/ (عصبها وصوفها وقرنها ووبرها) وريشها ومنقارها وظلفها وحافرها لطهارتها لأن الحياة لا تحلها فلا يحلها الموت.

ہدایہ  شرح البدایہ (4/ 94)میں ہے:

قال ويكره بيع السلاح في أيام الفتنة معناه ممن يعرف أنه من أهل الفتنة لأنه تسبيب إلى المعصية وقد بيناه في السير وإن كان لا يعرف أنه من أهل الفتنة لا بأس بذلك لأنه يحتمل أن لا يستعمله في الفتنة فلا يكره بالشك

كنز الدقائق (ص: 390) ( عبد الله بن احمد بن محمود نسفی710ھ)میں ہے:

وكره بيع السّلاح من أهل الفتنة وإن لم يدر أنّه منهم لا

النوادر والزيادات على ما فی المدونۃ من غيرہا من الامہات (4/ 371) میں ہے:

وكره ‌مالك ‌أكل الحية والعقرب والفأرة من غير تحريم، ومن أكل ذلك فليذكيه ………… وما كان منها من هوام الأرض ودوابها مما له لحم ودم سائل مثل الحية والفأرة وشبه ذلك لأنه يفسد ما مات فيه مما يؤكل ويشرب، ويكره أكله لغير ضرورة إذا ذكي ولا يكره ذلك ‌لمداواة وشبه ذلك، وهذا يذكى بالذبح في الحلق أو بالصيد بنية الذكاة»

التنبیہات المستنبطۃ على الكتب المدونۃ والمختلطۃ، ابوالفضل عیاض السبتی،م:544ھ(1/ 36) میں ہے:

«لا يؤكل الخشاش على الصحيح من المذهب إلا بذكاة، وإن كان بعض المشايخ خرج أكله بغير ذكاة على الخلاف في الجراد. وإليه ذهب القاضي أبو محمَّد عبد الوهاب»

التبصرة لللخمی  ، ابوالحسن علی اللخمی، م:478ھ(4/ 1599) میں ہے:

«الثَّالث: ميت حيوان البرِّ إذا لم تكن له نفس سائلة، وميت حيوان البحر إذا كانت له حياة في البر، فقيل: يؤكل ولا يحتاج إلى ذكاة. وقيل: لا يؤكل إلا بذكاة»

مواہب الجليل في شرح مختصر الخليل(3/ 231)میں ہے:

«من ‌احتاج ‌إلى ‌أكل ‌شيء ‌من ‌الخشاش ذكاه كالجراد والعقرب والخنفساء والجندب والزنبور واليعسوب والذر والنمل والسوس والحلم والدود والبعوض والذباب انتهى …………. والخشاش بضم الخاء الحيوان الذي ‌لا ‌دم ‌له

بہشتی زیور (777) میں ہے:

مسئلہ : سوائے خنزیر کے زندہ سب جانوروں کی بیع کسی فائدے کے لئے درست ہے خواہ بری ہوں یا  بحری۔ چھوٹے ہوں یا بڑے  حتی کہ کتے اور چیتے  اور سانپ وغیرہ کی بیع بھی ، اور مردہ  ان حیوانات  کی بیع درست  ہے جو پاک ہوں جیسے دریائی  جانور یا حشرات غیر ذی دم……….

بہشتی زیور (775) میں ہے :

مسئلہ : کیڑے مکوڑے اور خشکی کے جملہ جانور جن میں دم سائل نہ ہو پاک ہیں جیسے اکثر حشرات الارض بچھو ، تیتے، چھوٹی چھپکلی جس میں دم سائل نہ ہو ،چھوٹا سانپ جس میں دم سائل نہ ہو خارجا ان کا استعمال ہر طرح درست ہے۔

فتاوی رشیدیہ (ص:586)میں ہے:

سوال: بقول اطباء حیوان بحری  کھانے کی دواء میں استعمال جائز ہے یا نہیں؟

جواب:استعمال اس کا جائز ہے اور وہ پاک ہے اگرچہ وہ غیر ماہی ہو کہ دیگر ائمہ کے نزدیک وہ جائز ہے اور ضرورۃً احناف کے نزدیک بھی جائز ہے واللہ تعالیٰ اعلم

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved