• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

وصیت سے رجوع کرنے کا حکم

استفتاء

کیا فرماتے ہیں علمائے دین مفتیان کرام شرع متین مسئلہ ہذا کے بارے میں کہ *** ایک مولوی ہے تقریبا 18 سال امامت کر چکا ہے لیکن والدین کی خدمت نا کے برابر کی ہے والدین بھوکے پیاسے دنیا کی نعمتوں سے محروم رہ کر انتقال کر گئے، *** نے شادی نہیں کی ہے، *** کا تقریبا 25 لاکھ روپے کا مکان ہے اور نقد بینک بیلنس بھی ہے *** نے اپنی جائیداد کی مدرسہ اور مسجد کے لیے وصیت کر دی ہے *** چاہتا ہے کہ وصیت سے رجوع کر لے اور مکان بیچ کر ایک حج اپنی طرف سے کرے اور دو حج بدل اپنے والدین کی طرف سے کر لے تاکہ آخرت میں والدین کی نافرمانی کے گناہ سے بچ جائے ایسا کرنا *** کے لیے شرعا جائز ہے یا نہیں ؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

وصیت کرنے والے کے لیے اپنی زندگی میں کی ہوئی وصیت سے رجوع کرنے کی اجازت ہے لہذا آپ وصیت کیے ہوئے مکان اور بینک بیلنس کو اپنے ذاتی مصرف میں استعمال کر سکتے ہیں اور اپنی طرف سے اور والدین کی طرف سے حج کرنا چاہیں تو وہ بھی کر سکتے ہیں۔

تو جیہ: وصیت موصی (وصیت کرنے والے) کے حق میں عقد تبرع ہوتا ہے، عقد لازم نہیں ہوتا ۔اس لیے وہ رجوع کا اختیار رکھتا ہے جب تک زندہ ہو۔

بدائع الصنائع(6/493) میں ہے:

‌الوصية ‌بالفرائض والواجبات واجبة، وبما وراءها جائزة، ومندوب إليها، ومستحبة في بعض الأحوال، وعند بعض الناس: الكل واجب  وأما التي هي بعد الوجود فهي أن هذا عقد غير لازم في حق الموصى حتى يملك الرجوع عندنا ما دام حيا؛ لأن الموجود قبل موته مجرد إيجاب، وأنه محتمل الرجوع في عقد المعاوضة فهي بالتبرع أولى كما في الهبة، والصدقة إلا التدبير المطلق خاصة فإنه لازم لا يحتمل الرجوع أصلا ……….. ثم الرجوع قد يكون نصا، وقد يكون دلالة، وقد يكون ضرورة، أما النص فهو أن يقول الموصي: رجعت، أما الدلالة فقد تكون فعلا، وقد تكون قولا، وهو أن يفعل في الموصى به فعلا يستدل به على الرجوع أو يتكلم بكلام يستدل به على الرجوع ……….. وأما الرجوع ‌الثابت من طريق الضرورة فنوعان: أحدهما أن يتصل بالعين الموصى به زيادة لا يمكن تسليم العين بدونها ………. والثاني: أن يتغير الموصى به بحيث يزول معناه، واسمه سواء كان التغيير إلى الزيادة أو إلى النقصان

احسن الفتاوی (9/296) میں ہے :

سوال: *** نے حالت مرض میں اپنا مکان مسجد کو دے دیا اور سرکاری کاغذات میں لکھوا بھی دیا کہ مسجد کو دے چکا ہوں لیکن ابھی مسجد کا قبضہ نہیں ہوا تو کیا *** شرعاً اس وصیت کو باطل کر سکتا ہے یا نہیں؟

الجواب باسم ملہم الصواب:وصیت سے رجوع جائز ہے۔قال العلامة الحصكفي رحمه الله تعالى وله اي للموصى الرجوع عنها بقول صريح او فعل يقطع حق المالك عن الغصب بان يزيل اسمه واعظم منافعه كما عرف في الغصب

 

 قال العلامة ابن عابدين رحمه الله تعالى قوله وله اي للموصل الرجوع عنها واعلم ان الرجوع في الوصيه على انواع ما يحتمل الفسخ بالقول والفعل كالوصيه بعين وما لا يحتمله الا بالقول كالوصيه بالثلث او الربع فانه لو باع او ذهب لم تبطل وتنفذ الوصية من ثلث الباقي وما لا يحتمله الا بالفعل التدبير المقيد فلو باعه صح لكن الذي اشتراه عاد لحاله الاولى وما لا يحتمل بهما كالتدبير المطلق ملخصا من الاتقانى والقهستاني قوله او فعل هذا رجوع دلالة والاول صريح وقد يسقط ضرورية بان يتغير الموصى به ويتغير اسمه (ردالمحتار)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved