- فتوی نمبر: 25-35
- تاریخ: 16 اگست 2021
- عنوانات: عقائد و نظریات > متفرقات عقائد و نظریات
استفتاء
براہ مہر بانی راہنمائی فرمادیں کہ ’’ جو شخص یہ سمجھےکہ اگرمیں نکاح نہ کروں تو پھربھی پوری زندگی اللہ کے ذکر میں مصروف رہوں گا اور حرام کے نزدیک بھی نہیں جاؤں گا ‘‘ کیا ایسے آدمی کے لئے نکاح نہ کرنا افضل ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
اگر کسی شخص کو حرام میں مبتلاء ہونے کا خدشہ نہ ہو پھر بھی نکاح کرنا افضل ہے ، کیونکہ نکاح بذات خود سنت ہے ، اور نکاح کے ذریعے نیک لوگوں کی بقاء بھی ہے اورامت محمدیہ میں اضافہ کا ذریعہ بھی ہے، جبکہ غیر شادی شدہ کی نیک اولاد ہونا نا ممکن ہے ، چنانچہ حدیث شریف میں آتا ہے : نکاح کرو (اور تعداد میں) زیادہ ہوجاؤ ، اس لئے کہ میں قیامت میں تمہارے ذریعے سے اور امتوں پر فخر کروں گا ۔
مصنف عبدالرزاق (ج:6، ص:173، ح:10391) میں ہے:
"تناكحوا، تكثروا، فإني أُباهي بكم الأمم يوم القيامة،”
النہر الفائق (2/175) میں ہے:
"(وهو) اي النكاح (سنة) مؤكدة علي الاصح يعني حالة الاعتدال .”
حاشیۃ الطحطاوی علی الدر (2/1) میں ہے:
"(كتاب النكاح) لما فرغ من العبادات شرع في المعاملات لان بها بقاء العابدين ، وقدم منها النكاح لانه اقرب اليها حتي كان الاشتغال به افضل من التخلي لنوافل العبادة اي الاشتغال بالنكاح ، وما يشتمل عليه من القيام بالمصالح ، واعفاف نفسه عن الحرام ، وتربية الولد ونحوه اه نهر .”
فتاوی مفتی محمود (10/472) میں ہے:
"راجح یہ ہے کہ اعتدال شہوت کے وقت یعنی جب کہ ابتلائے معصیت کا مظنہ بھی نہ ہو بلکہ صبر و ضبط پر قدرت ہو، ادائے حق زوجیت پر قدرت ہو ، اور ادائے نفقہ و مہر پر بھی قدرت ہو ، سنت مؤکدہ ہے
مسائل بہشتی زیور (2/33) میں ہے:
"سنت موکدہ:جب حالت اعتدال ہو اور جماع اور مہر اور نفقہ پر قدرت ہو۔”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved