- فتوی نمبر: 6-239
- تاریخ: 27 مارچ 2014
- عنوانات: مالی معاملات
استفتاء
5۔ لوگ قسطیں لیٹ جمع کرواتے ہیں اس لیے تنبیہ کی صورت مالی جرمانہ کے علاوہ سمجھ میں نہیں آتی تو اگر ایک خیراتی فنڈ بنا لیں، مالی جرمانہ اس میں جمع ہوتا رہے، پھر وہ غرباء میں تقسیم کر دیا کریں تو اس کی گنجائش ہے یا نہیں؟
شراکت کے اختتام پر زکوٰۃ کا حساب
6۔ دونوں شراکت داروں پر اب زکوٰۃ کتنی بنتی ہے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔ ہر ایک نے پورے سال میں کل جتنے پیسے ادا کیے وہ اس کی اصل رقم ہے، دیون اور اخراجات نکال کر باقی نفع ہے۔
2۔ دیون ہر ایک کے کل سرمایہ کے حساب سے اس پر آئیں گے۔
إذا فسخ الشريكان الشركة و اقتسماهما ….. و ما في الذمم من الدين أيضاً يبقی مشتركاً. (المجلة المادة: 1354)
3۔ اگر معاہدہ آئندہ بھی چلانا چاہتے ہیں اور پچھلے معاہدہ کو زبان سے ختم نہیں کیا تھا تو معاہدہ ابھی جاری ہے۔
تنفسخ الشركة بفسخ أحد الشريكين لكن علم الآخر بفسخه شرط فلا ينفسخ الشركة ما لم يكن فسخ أحدهما معلوماً للآخر. (المادة: 1353)
4۔ شرکت میں ہر شریک کا سرمایہ، عمل اور نفع (جو کہ کسی شریک کے زائد سرمایہ یا زیادہ محنت کی بناء پر کم و بیش ہو سکتا ہے) کی شرح ابتداء میں طے ہونی چاہیے۔ جبکہ مذکورہ کاروبار میں شروع کرتے وقت سرمایہ اور نفع کی شرح طے نہیں تھی۔
رأس المال في الشركة الأموال يكون مشتركاً بين الشريكين متساوياً أو متفاضلاً. (المادة: 1351)
و من الجائز أن يكون عمل شخص أكثر قيمة بالنسبة إلی عمل شخص آخر مثلاً إذا كان يشتركان شركة عنان و رأس ماليهما متساوياً و كلاهما أيضاً مشروط عمله و شرط إعطائ أحدهما حصته زائدة من الربح يكون الشرط جائزاً لأنه يجوز أن يكون أحدهما في الأخذو الإعطائ أمهر و عمله أزيد و أنفع. (المادة: 1345)
5۔ ایسا کر سکتے ہیں۔
6۔ دیون اور اخراجات نکال کر باقی نفع اور اصل رقم کی زکوٰۃ ادا کریں۔
و منها الفراغ عن الدين قال أصحابنا رحمهم الله تعالی كل دين له مطالب من جهة العباد يمنع وجوب الزكاة. الخ (هندية: 1/ 173) فقط و الله تعالی أعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved