- فتوی نمبر: 9-39
- تاریخ: 24 مئی 2016
استفتاء
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کیا قاری صاحب جو بچوں کو پڑھاتے ہیں بچوں کو بطور تنبیہ مار سکتے ہیں؟ اور کتنا مار سکتے ہیں؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
طالب علم اگر بالغ ہو لڑکا ہو یا لڑکی تو اس کی تعلیم میں کوتاہی کرنے پر سزا دینا جائز ہے۔ بشرطیکہ والدین کی کی طرف سے سزا دینے کی اجازت ہو اور اس کی حد یہ ہے کہ کماً و کیفاً و محلاً ضرب معتاد سے زیادہ نہ ہو۔ مگر آج کل عوام کو علم دین کی طرف زمانہ سابق کی طرح رغبت نہیں رہی اس لیے اکثر والدین کو معلم کی سزا ناگوار ہوتی ہے۔ نیز معلم بھی آج کل زیادہ تر مسائل سے جاہل اور اخلاق سے کورے ہیں۔ وہ حدود کی رعایت نہیں کرتے۔ اس لیے اس زمانہ میں ایسے سوالات کا جواب دیا جائے گا کہ معلم خود سزا نہ دے بلکہ جو لڑکا تعلیم میں کوتاہی کرے، اسی دن والدین کو اطلاع کر دی جائے کہ یہ لڑکا محنت نہیں کرتا۔ اب والدین خواہ سزا دیں یا نہ دیں اختیار ہے۔ اور جو لڑکا محنت کرتا ہو مگر قدرتی طور پر کند ذہن ہے اس کو سزا نہ دی جائے نہ والدین سے سزا دلوائی جائے بلکہ اس کو بقدر ضرورت قرآن اور کچھ نماز روزے کے مسائل پڑھا کر والدین سے کہہ دیا جائے کہ اس کو کسی کام میں لگا دو، یہ پڑھنے کے لائق نہیں۔
اور نابالغ بچہ کو لکڑی یا کوڑے سے مارنا جائز نہیں۔ صرف ہاتھ سے مارنا جائز ہے، بشرطیکہ چہرہ پر اور نازک موقعہ پر نہ مارا جائے اور تین بار سے زائد نہ مارا جائے۔ (ماخوذ از امداد الاحکام: 4/ 134)
فتاویٰ شامی (9/ 710) میں ہے:
(و الأب يأمر) جملة حالية: أي لا يجوز ضرب و لد الحر بأمر أبيه أما المعلم فله ضربه لأن المأمور يضربه نيابة عن الأب لمصلحته و المعلم يضربه بحكم الملك بتمليك أبيه لمصلحة التعليم و قيده الطرسوسي بأن يكون بغير آلة جارحة و بأن لا يزيد على ثلاث ضربات، و رده الناظم بأن لا وجه له و يحتاج إلى نقل و أقره الشارح قال الشرنبلالية: و النقل في كتاب الصلاة يضرب الصغير باليد لا بالخشبة و لا يزيد على ثلاث ضربات.
احسن الفتاویٰ (8/ 358) میں ہے:
’’بالغ یا نابالغ بچوں کو پڑھائی میں کوتاہی یا کسی غلطی پر سزا دی جا سکتی ہے یا نہیں؟
الجواب: بوقت ضرورت بقدرت ضرورت طلبہ کو سزا دینا جائز ہے طبائع و قویٰ کے اختلاف سے حکم مختلف ہو گا۔ البتہ اصولی طور پر چند امور کی پابندی ضروری ہے: (1) چہرے پر نہ مارا جائے۔ (2) اتنا نہ مارا جائے کہ زخمی ہو جائے۔ (3) تحمل سے زائد نہ ہو۔‘‘
کفایت المفتی (2/ 203) میں ہے:
’’سوال: مدارس اور اسکولوں میں بہ سبب شرارت یا اسباق یاد نہ کرنے کے استاد یا ماسٹر لوگ بید یا قمچی یا ہاتھ سے اپنے شاگردوں کو تنبیہ اور تعزیر دیتے ہیں اس کے متعلق شرع شریف میں کتنی حد مقرر ہے؟ کس حد تک تنبیہاً ان اشیاء کو استعمال کر سکتے ہیں؟ یا بالکل جائز نہیں اور کس حد سے تجاوز کرنے سے استاد آثم ٹھہرے گا اور آثم ٹھہرنے میں اس پر شرعاً کیا تعزیر لازم آئے گی؟ نیز اگر غصے کی حالت میں استاد کچھ درشتی کے الفاظ سب و شتم استعمال کرے تو کس حد تک استعمال کر سکتا ہے اور کس حد سے تجاوز حرام ہے؟
جواب: چہرہ اور مذاکیر کے علاوہ سارے بدن پر تاوقتیکہ تجاوز عن الحد نہ ہو مارنا جائز ہے۔ یعنی اس طرح مارنا کہ بدن کہیں سے زخمی ہو جائے یا کہیں کی ہڈی ٹوٹ جائے یا بدن پر سیاہ داغ پڑ جائیں یا ایسی ضرب ہو جس کا اثر قلب پر پڑتا ہو جائز نہیں۔ اگر مارنے میں حد معلومہ سے تجاوز ہو یا چہرہ اور مذاکیر پر خواہ ایک ہی ہاتھ چلائے گناہ گار ہو گا۔
استاد کو بشرط اجازت والدین اس قدر مارنے کا اختیار ہے جو مذکور ہو اور وہ بھی جب کہ مارنے کے لیے کوئی صحیح غرض تادیب یا تنبیہ یا کسی بری بات پر سزا ہی ہو بے قصور مارنا یا مقدار قصور سے زیادہ مارنا جائز نہیں۔ البتہ استاد خود مستحق تعزیر ہو گا۔‘‘
فتاویٰ حقانیہ (5/ 170) میں ہے:
’’سوال: دینی مدارس میں طلباء کو کسی شرارت پر یا سبق یاد نہ کرنے کی وجہ سے بطور تنبیہ اور تادیب کے سزا دی جاتی ہے تو کیا استاد شاگرد کو شرعاً سزا دے سکتا ہے یا نہیں؟
الجواب: استاد شاگرد کو تعزیر دینے کا حق رکھاتا ہے اگرچہ وہ بالغ ہی کیوں نہ ہو۔ کیونکہ نابالغ ہونے کی صورت میں تو معلم اس کے اولیاء کی طرف سے تادیب کا مالک بنا دیا گیا ہے اور بالغ نے خود معلم کو تعزیر کا اختیار دیا ہے۔ لیکن یہ اختیار ہے کہ سزا ایسی نہ ہو کہ اس سے طالب علم بدنی یا ذہنی طور پر مفلوج ہو جائے۔
قال العلامة ابن عابدين رحمه الله: قوله (و في القنية) و فيها عن الروضة و لو أمر غيره بضرب عبده حل للمأمور ضربه بخلاف الحر، فهذا تنصيص على عدم جواز الضرب ولد الآمر بأمره بخلاف المعلم لأن المأمور يضربه نيابة عن الأب بمصلحة و المعلم يضربه بحكم الملك بتمليك أبيه بمصلحة الولد. و هذا إذا لم يكن الضرب فاحشاً. (رد المحتار: 3/189 باب التعزير)“ …………………………………….. فقط و الله تعالى أعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved