- فتوی نمبر: 7-295
- تاریخ: 26 جنوری 2015
- عنوانات: مالی معاملات > شرکت کا بیان > شرکت عنان
استفتاء
محترم مفتی صاحب! امید ہے کہ آپ اور تمام ساتھی خیر و عافیت سے ہوں گے۔ تجارت کے بارے میں آپ سے کچھ رہنمائی چاہتا ہوں، تاکہ حرام سے بچ سکوں اور دنیا کے تھوڑے سے نفع کے لیے آخرت کے بڑے خسارے میں مبتلا نہ ہو جاؤں۔
میں نے ایک چھوٹا سا کاروبار شروع کیا ہے، جس میں مجھے سامان خرید کر کمپنیوں کو مہیا کرنا ہو گا۔ اور سامان خرید کر دینے کے لیے مجھے پیسوں کی ضرورت پڑے گی، جو میں کچھ دوسرے ساتھیوں سے لوں گا، چنانچہ میں شراکت کی بنیاد پر کچھ ساتھیوں کے پیسے کاروبار میں لگوانا چاہتا ہوں۔ شراکت ان شرائط کی بنیاد پر ہو گی:
1۔ یہ بتادوں کہ ان کا پیسہ کس کام میں لگا رہا ہوں۔
2۔ یہ بھی بتادوں کہ ان کا پیسہ کتنے عرصے کے لیے لگا رہا ہوں۔ (بعض دفعہ کمپنیوں سے پیسے ملنے میں تاخیر بھی ہو جاتی ہے، جس کی وضاحت شروع میں کردوں کہ ہو سکتا ہے کہ نفع کی ادائیگی وقت پر نہ ہو سکے)۔
3۔ نفع پہلے سے ہی طے کر دوں۔ (تاخیر ہونے کی صورت میں بھی طے شدہ نفع ہی ملے)، نفع کی صورت کچھ اس طرح سے رکھنا چاہتا ہوں:
i۔ جیسے سامان کی خریداری ایک لاکھ روپے مع ٹرانسپوٹیشن میں ہوئی، اور اس کو میں ایک لاکھ بیس ہزار روپے میں بیچتا ہوں، میں ان سے طے کرتا ہوں کہ ”اس کے نفع کا پندرہ فیصد اپنی کمپنی کے اخراجات کا نکال لوں گا”، (کیونکہ میں ان سے یہ رقم کسی ایک کمپنی میں سامان دینے کے لیے لے رہا ہوں، اس لیے ان پر اپنی کمپنی کے تمام اخراجات نہیں ڈال سکتا)۔ باقی جو رقم بچ جائے گی، اس کا تیس فیصد آپ کو دوں گا۔
ii۔ یا جیسے سامان کی خریداری ایک لاکھ روپے مع ٹرانسپوٹیشن میں ہوئی، اور اس کو میں ایک لاکھ بیس ہزار روپے میں بیچتا ہوں، میں ان سے یہ طے کرتا ہوں کہ اس کے نفع کا بیسواں حصہ آپ کو دوں گا اور اخراجات اپنے سے نکالوں گا۔
4۔ نقصان ہونے کی صورت میں ان کی جتنی شراکت نفع میں ہے، اتنی ہی شراکت نقصان میں بھی رہے گی۔ یہ شکل جائز ہے یا
ناجائز؟ اس کے بارے میں رہنمائی فرما دیں، اور اگر نا جائز شکل ہے تو جائز صورت کی رہنمائی بھی کر دیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
نفع کی تقسیم کے تجویز کردہ دونوں طریقے درست نہیں ہیں۔
پہلی صورت میں اخراجات کے لیے نفع کا ایک حصہ مخصوص کیا جا رہا ہے۔ اور دوسری صورت میں اخراجات کو ایک فریق اپنے ذمے لے رہا ہے۔ حالانکہ صحیح طریقہ یہ ہے کہ پہلے واقعی اخراجات نکالے جائیں، پھر باہم طے شدہ تناسب سے نفع تقسیم کیا جائے۔ نقصان ہر صورت میں سرمائے کے تناسب سے پڑتا ہے۔
نیز جب شراکت مختصر مدت کے لیے ایک خاص کام میں ہو رہی ہو تو اس شراکت کے پیسوں کو ارباب الاموال سے اجازت لیے بغیر آدمی اپنے کسی اور کام میں نہیں لگا سکتا، لہذا ہر ہر شرکت کے پیسوں کو علیحدہ رکھنا پڑے گا۔
بہتر عملی صورت یہ ہے کہ آپ کو جس سپلائی کے لیے سرمایہ درکار ہو آپ ارباب الاموال سے پیسے لینے کے بجائے اپنی مطلوبہ اشیاء مرابحتاً خرید لیں۔ جس کی بناء پر آپ کو نفع ہو یا نقصان ارباب الاموال کو طے شدہ وقت پر اپنے پیسے ملیں گے۔ اور پیسے علیحدہ علیحدہ رکھنے کا مسئلہ بھی نہیں ہو گا۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved