- فتوی نمبر: 6-105
- تاریخ: 28 جولائی 2013
- عنوانات: مالی معاملات > خرید و فروخت
استفتاء
بندہ نے اپنے بھائی کا ایک مکان رقبہ 10 مرلے بھائی کی رضا مندی سے اپنے اہل محلہ جانے والے کو 4235000 روپے میں فروخت کر دیا، طے یہ پایا کہ وہ بیعانہ کہ رقم 1235000 روپے پہلے ادا کرے گا اور بقایا 3000000 روپے تین ماہ کے اندر ادا کر کے مکان اپنے نام ٹرانسفر کروا لے گا، ہم نے یہ گھر اپنی ضرورت پوری کرنے کے لیے بیچنے کا ارادہ کیا تھا، بیعانہ کے وقت خریدار نے 1235000 روپے کی بجائے ہمیں پانچ لاکھ کی کمی سے 735000 روپے دیے، ادا کردہ رقم ہمارے کسی کام نہ آ سکتی تھی کہ ہم نے یہ سوچ کر کوئی اعتراض نہ کیا کہ جلد ہی ٹرانسفر کروا لیں گے، رقم قبول کر لی۔
یہاں یہ بھی ذکر کر دوں کہ مذکورہ بالا مکان کرایہ پر تھا اور یہ کہ خالی نہ تھا، خریدار گھر کے خالی ہونے کا انتظار کرتا رہا اور ٹرانسفر کروانے میں کوئی دلچسپی نہ لی، ہمارا وقت ضائع کر تا رہا، اس دوران ہم نے اس رقم کی کسی اور سوسائٹی میں زمین خریدنا تھی، ہم وقت پر وہاں سرمایہ کاری نہ کر سکے، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہمیں وہاں سے جواب ہو گیا، سارا کام دھرے کا دھرا رہ گیا، اسی اثناء میں 20 جولائی کو گھر خالی ہو گیا، خریدار کو پتہ چلا تو وہ فوراً ٹرانسفر کروانے کے لیے گردش میں آ گیا، یہاں تک کہ اس نے ہمارے نام کا باقی ماندہ رقم کا DD بینک سے بنوا لیا۔ہم نے اپنے تئیں یہ فیصلہ کیا کہ ہمارا آگے کام نہیں بنا، لہذا مکان کو نہ بیچا جائے اور یہ کہ قانوناً بیعانہ کی رقم ڈبل کر کے خریدار سے جان چھڑا لی جائے، لہذا ہم نے اپنے فیصلہ سے انہیں آگاہ کر دیا خریدار نے رد عمل کے طور پر اپنے عزیز و اقارب اور دوستوں کو اکٹھا کیا اور ہمارے ہاں چلا آیا، اور کہا کہ آپ گھر ہم کو دیں، ہم نے کہا کہ ہمارا ارادہ ایسا کرنے کا نہیں ہے، انہوں نے کہا کہ گھر ہماری ضرورت ہے، آپ یہ ہمیں دے دیں، جواب میں ہم نے کہا کہ یہ ممکن نہیں ہے، تو انہوں نے کہا کہ ہم کو ڈبل بیعانہ دے دیا جائے، ہم نے درخواست کی کہ اس میں جائز حد تک تخفیف کر دیں، مگر انہوں نے صاف انکار کر دیا، خریدار نے دوران گفتگو کہا کہ اگر آپ قیمت خرید بڑھا کر لینا چاہتے ہیں تو ہم اس پر بھی غور کر سکتے ہیں۔ ہم نے کہا ایسا نہیں ہے اور نہ ہمارا ارادہ ہے، ہمارے لیے بیٹھے بٹھائے اتنے بڑے نقصان کو برداشت کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے، ہم ڈبل بیعانہ نہیں دے سکتے۔ لہذا ہمیں مکان ہی دینا پڑے گا۔
بندہ بذریعہ درخواست ہذا شریعت کے احکام جاننا چاہتا ہوں کہ اگر ہمیں چارو نا چار گھر دینا پڑتا ہے تو کیا ہم ان سے قیمت خرید بڑھانے کا کہہ سکتے ہیں؟ کیا قیمت خرید میں اگر کوئی ایسا اضافہ ہو تو کیا وہ ہمارے لیے حلال ہے یا حرام؟ یاد رہے کہ اس دوران حالات کچھ بدل گئے ہیں اور کہ ہمیں جہاں ہم چاہتے تھے، سرمایہ کاری کرنے کی اجازت مل گئی ہے۔ رہنمائی فرمائیں کہ شریعت کے مطابق
ہمیں کیا کرنا چاہیے۔
نوٹ: عقد جون 2013ء میں ہوا اور ادائیگی ستمبر تک کرنی تھی۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں ایجاب و قبول کے بعد عقد لازم ہو گیا ہے، اور جو مدت متعین کی تھی ادائیگی کی وہ بھی نہیں گذری، لہذا آپ کے ذمہ ہے کہ اسی قیمت پر مکان کو مشتری کے سپرد کریں جو طے ہوئی تھی یعنی 4235000 روپے، زیادہ کا مطالبہ کرنا جائز نہیں، لیکن اگر آپ درخواست کریں اور خریدار زائد رقم اپنی مرضی سے دے دے تو اس صورت میں لے سکتے ہیں۔ زبردستی نہیں لے سکتے۔
و إذا حصل الإيجاب و القبول لزم البيع و لا خيار لواحد منهما إلا من عيب أو عدم رؤية.(فتح القدير: 6/ 237) فقط و الله تعالی أعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved