- فتوی نمبر: 6-56
- تاریخ: 18 جون 2013
- عنوانات: مالی معاملات > خرید و فروخت
استفتاء
بعد از سلام عرض ہے کہ اکثر فقہ کے متون میں یہ بات مذکور ہے کہ اقالہ ثمن اول پر جائز ہے، ثمن اول سے کم و بیش پر نہیں۔ جیسا کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا مذہب ہے۔
ہدایہ میں ہے:
الإقالة جائزة في البيع بمثل الثمن الأول …. فإن شرط أكثر منه أو أقل فالشرط باطل و يرد مثل الثمن الأول…. (الهداية آخرين: باب الإقالة: 69)
اسی طرح در مختار میں ہے:
و تصح بمثل الثمن الأول و بالسكوت عنه …
لیکن دوسری طرف بعض کتب میں ثمن اول سے کم پر بھی اقالہ درست مانا گیا ہے۔ جیسا کہ ہندیہ کی عبارت میں ہے:
اشتری ابريسماً فأخذه ثم قال البائع لا يصلح لعملي فخذه و ادفع إلي الثمن فأبی البائع فقال تركت كذا من الثمن و ادفع إلي الباقي ففعل فهو إقالة لا بيع مبتدءً. (هندية: 3/ 156)
اسی طرح شرح مجلہ سے بھی ہندیہ کی اس عبارت کی تائید ہوتی ہے:
و كذلك إذا اشتری إنسان من آخر ثوب حرير و بعد أن قبضه قال للبائع: لا ينفعني هذا الثوب فخذه و أعدلي دراهمي فلم يوافق البائع علی ذلك فقال المشتري قد نزلت عن مقدار كذا من الثمن فادفع لي الباقي فوافق البائع علی ذلك و تم الأمر بينهما فهذا إقالة و ليس بيعاً جديداً. (درر الحكام: 1/ 166، إقالة البيع)
مندرجہ بالا مسئلے میں بظاہر جو تعارض ہے اس کی تطبیق یا ترجیح کیسے ہو گی؟ دوسری بات یہ کہ اگر کم و بیش پر معاملہ کر لیا جائے تو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے ہاں اس معاملے کا کیا حکم ہو گا؟ رہنمائی فرما کر ممنون فرمائیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
سودا واپس کرنے کی بظاہر تین صورتیں ہیں:
1۔ بیع کے لفظ کے ساتھ، بیع ہے اقالہ نہیں۔ سب کے حق میں بیع ہے۔
2۔ فسخ کرنے یا چھوڑنے کے لفظ کے ساتھ۔ سب کے حق میں فسخ ہے۔
3۔ اقالہ یا “واپس لے لو” کے لفظ کے ساتھ۔ عاقدین کے حق میں فسخ اور دیگر کے حق میں بیع ہے۔
اقالہ ہو یا فسخ ثمن اول پر ہی ہوتا ہے کم و بیش طے کریں تب بھی ثمنِ اول لازم ہوتا ہے۔ بیع کے الفاظ ہوں تو بیعِ جدید ہوتی ہے جو کہ ثمنِ اول سے کم و بیش پر درست ہے۔
منسلکہ عبارات کی غرض یہ نہیں ہے کہ اقالہ ثمنِ اول سے کم پر بھی جائز ہوتا ہے بلکہ غرض یہ ہے کہ جب عاقدین کے الفاظ بیع جدید، فسخ اور اقالہ تینوں کا احتمال رکھتے ہیں تو یہ “ترک كذا من الثمن و ادفع إلي الباقي” یا “قد نزلت عن مقدار كذا من الثمن فادفع لي الباقي” کے الفاظ کس پر دلالت کرتے ہیں؟ بیع جدید پر، فسخ پر یا اقالہ پر؟ تو عبارات میں وضاحت کر دی گئی کہ مذکورہ الفاظ بیعِ جدید کے نہیں ہیں، جس میں ثمن اول پر کمی و بیشی جائز ہوتی ہے، بلکہ اقالہ کے ہیں جس میں باجود کم کرنے کے ثمنِ اول ہی لازم ہوتا ہے۔ (تفصیل کے لیے دیکھئے شرح مجلہ 2/ 71) فقط و اللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved