- فتوی نمبر: 6-148
- تاریخ: 15 ستمبر 2013
- عنوانات: مالی معاملات
استفتاء
ایک شخص نے اپنا ایک جھگڑے والا پلاٹ اپنے دو بیٹوں کے ہاتھ ڈھائی لاکھ روپے میں فروخت کر دیا۔ در حقیقت بیٹوں نے ہی
اصرار کر کے یہ پلاٹ والد سے خرید لیا تھا کہ آپ ہمیں یہ پلاٹ (جس کے ڈیڑھ لاکھ بھی نہیں مل رہے تھے)، ڈھائی لاکھ میں دے دیں، اس کے بعد جھگڑا ہم نمٹا لیں گے، پھر ہم جانیں اور یہ پلاٹ۔ خواہ اس کی قمت سونا ہو جائے یا مٹی، ہم آپ کو ڈھائی لاکھ ادا کر دیں گے۔ والد رضا مند ہو گئے۔ پچاس ہزار کی پہلی قسط بھی ادا کر دی گئی۔ کچھ عرصہ بعد پچاس ہزار کی ایک اور قسط بھی ادا کر دی گئی۔ اس کے بعد قسطوں میں تاخیر بھی ہوتی رہی لیکن ادا کی گئیں۔ آخر میں صرف پچاس ہزار کی ادائیگی باقی تھی۔ جب والد کو پتہ چلا کہ یہ پلاٹ انہوں نے تقریباً نو لاکھ میں فروخت کیا ہے جس کی قیمت یہ وصول کر رہے ہیں (ہو سکتا ہے والد کو یہ بات پہلے ہی پتہ چل چکی ہو جیسا کہ بعض وارثوں کا کہنا ہے)، چنانچہ والد نے اس تھرڈ پارٹی سے پلاٹ کی قیمت کی ایک قسط یعنی دو لاکھ روپے بیٹوں کی طرف سے وصول کر لیے اور جب ایک بیٹے نے معلوم ہونے پر والد صاحب سے مانگے تو انہوں نے دینے سے انکار کر دیا، اور یہ موقف اپنایا کہ کہ مجھے انہوں نے بہت تاخیر کر کے ادائیگیاں کیں اور آخری پچاس ہزار والی قسط تو اب تک مؤخر کی ہوئی ہے۔ لہذا اب یہ دو لاکھ سارے ہی میرے ہیں۔ انہیں سمجھانے کی کوسش کی گئی لیکن ان کا موقف یہی رہا،۔
اب رمضان شریف میں ان کا انتقال ہو گیا۔ ان کی اہلیہ نے فوراً ترکے میں سے اضافی رقم بیٹے کے حوالے کی، تاکہ غصب کا گناہ میت کے سر نہ رہے۔ لیکن اب دو وارثوں نے اعتراض اٹھایا ہے کہ "اضافی رقم مرحوم کی ملکیت تھی اور ان کا حق تھی”۔ پہلے وارث کا کہنا ہے کہ ایک حدیث میں ہے کہ "تو اور تیرا مال سب تیرے بات کا ہے”۔ لہذا جتنا والد نے رکھ لیا وہ ان کی ملکیت تھا، اب ترکہ میں شامل ہونا چاہیے۔دوسرے وارث نے یہ نکتہ اٹھایا کہ "جب والد صاحب نے وہ دو لاکھ والی قسط رکھ لی تھی تو در حقیقت وہ سابقہ بیع کی منسوخی اور نئی قیمت کے ساتھ ایک نئی بیع تھی، یعنی اس وقت والد صاحب پرانی فروخت کا معاملہ ختم کر کے اس پلاٹ کی ایک نئی طے شدہ قیمت چار لاکھ روپے رکھنا چاہ رہے تھے، اس لیے انہوں نے وہ رقم لے لی تھی، پس وہ ان کا حق تھی، اب اسے ترکہ میں شامل ہونا چاہیے”۔
پلاٹ خریدنے والے بیٹے والد کے اس عمل پر راضی نہیں تھے، لیکن باپ سے لڑ نہیں سکتے تھے، اس لیے خاموش رہے۔
واضح رہے کہ بیٹوں نے واقعتاً والد صاحب سے ایک سال کے اندر تمام قسطیں ادا کرنے کا وعدہ کیا تھا، لیکن ایک سال سے کافی زائد عرصہ میں قسطیں مکمل کیں، مگر اس وقت والد صاحب نے نہ تاخیر کی شکایت کی نہ کوئی اور مطالبہ کیا۔ جب اضافی رقم لے لی تب یہ کہنا شروع کیا کہ یہ اضافی رقم ، اضافی مدت کی وجہ سے لی ہے۔
اب پوچھنا یہ ہے کہ کیا مرحوم کی اہلیہ کا اقدام درست ہے؟ یا رقم بیٹے سے واپس لے کر ترکہ میں شامل کی جائے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں والدہ کا اقدام درست ہے اور یہ رقم ترکے میں شامل نہ ہو گی، بلکہ صرف ان دو لڑکوں کا حق ہو گی جنہوں نے پلاٹ والد سے خریدا تھا۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved