• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

1)چلتے پھرتے قرآن پڑھنے کا حکم(2 ) نماز کے بعد سجدے میں دعا مانگنا

استفتاء

(1)اگر کوئی  کسی عذر کی وجہ سے چلتے پھرتے قرآن یا سورۃ یٰسین پڑھے تو گناہ ہے یا نہیں؟

وضاحت مطلوب ہے کہ: عذر کی تفصیل کیا ہے؟

جواب وضاحت: مثلا کوئی امید والی عورت کے پاؤں سوجھے ہوں ، بیٹھ نہ سکتی ہو، زیادہ چلتے پھرتے پڑھ لے؟

(2) اگر کوئی شخص   نماز کے بعد سجدے میں ہاتھ پھیلا کر سر جھکا کر دعا مانگے، اور یہ سمجھے کہ سجدے میں دعا زیادہ قبول ہوتی ہے ۔ یہ صحیح ہے یا نہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

(1)  چلتے پھرتے  قرآن پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

(2) نمازوں کے بعد خالی دعا کے لئے الگ سے سجدہ کرنا مکروہ ہے کیونکہ اس صورت میں عوام کو اس کے سنت ہونے کا شبہ ہو سکتا ہے حالانکہ یہ سنت نہیں۔ البتہ تنہائی میں خالی دعا کے لئے  سجدہ کرنا صرف جائز یعنی مبا ح ہے سنت یا مستحب نہیں، لہذا اسے سنت یا مستحب سمجھنا یا اس کی عادت ڈالنا اور یہ سمجھنا کہ سجدے میں دعاء زیادہ قبول ہوتی ہے بدعت ہے۔

حاشیۃ ابن عابدین (100/3) میں ہے:

وفي القنية لا بأس بالقراءة راكبا أو ماشيا إذا لم يكن ذلك الموضع معدا للنجاسة فإن كان يكره اه

ہندیہ (95/9) میں ہے:

ولا بأس بالقراءة راكبا وماشيا إذا لم يكن ذلك الموضع معدا للنجاسة فإن كان يكره

کفایت المفتی (413/3) میں ہے:

(سوال )  آج کل بعضے آدمی  جب نماز سے فارغ ہوتے ہیں تو دونوں کف دست چت کرکے یا بغیر اس کے سر بسجود ہوتے ہیں اور دعا کرتے ہیں اور گڑ گڑاتے ہیں ۔ سند اور دلیل میں وہ حدیث پیش کرتے ہیں جو حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے فرماتی ہیں کہ ایک رات رسول اللہﷺخواب راحت فرماتے تھے،اتفاق سے شب برأت تھی تھوڑی رات کے بعد جو میں جاگی دیکھتی ہوں کہ آپ بستر پر نہیں ہیں، تو میں  آپ کو تلاش کرنے کے واسطے نکلی اس خیال سے  کہ شاید آپ کسی دوسری بیوی کے گھر گئے ہوں گے،اور میں نے سب گھروں میں تلاش کیا کہیں  آپ کا پتہ نہ لگا ۔آخر شب میں جنت البقیع کی طرف  گئی کہ شاید آپ وہاں گئے ہوں ، جب میں وہاں گئی تو دیکھتی ہوں کہ آپ سجدے میں پڑے ہوئے ہیں اور اپنی امت کی بخشش  کی دعا کررہے ہیں اور رورہے ہیں اور گڑ گڑا رہے ہیں۔  اور ایک حدیث  جو حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے دلیل میں پیش کرتے ہیں :

قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ألا اني نهيت ان اقرأ القران راكعا وساجدا، فاما الركوع فعظموا فيه الرب، واما السجود فاجتهدوا في الدعا، فقمن ان يستجاب لكم۔ رواه مسلم كذا في مسشكوة باب الركوع

اب سوال یہ ہے کہ اس طرح نماز کے بعد سربسجود ہوکر دعا مانگنا اور  اپنی مرادیں مانگنا جائز ہے یا نہیں ؟  اور ان دونوں حدیثوں سے استدلال پکڑنا صحیح ہوسکتا ہے یا نہیں ؟  

( جواب)  سوال میں جو احادیث منقول ہیں ان سے صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ نفل نماز کے اندر سجدہ میں دعا مانگی گئی ہے یا مانگی جائے بعد نماز صرف دعا کے لئے سجدہ کرنے کا ثبوت ان احادیث سے نہیں ہوتا۔ اور حقیقت یہ ہے کہ نماز کے بعد محض دعا کرنے کے لئے سجدہ کرنے کی اصل شریعت میں نہیں،  بیشک سجدہ شکر جو کسی نعمت کے حصول پر کیا جائے و ہ بقول مفتی بہ جائز ہے اور صرف دعا کے لئے سجدہ کرنے سے فقہاء اس لئے منع کرتے ہیں کہ اس سے جہلاء کا عقیدہ فاسد ہوتا ہے ۔

وسجدة الشكر مستحبة به يفتى لكنها تكره بعد الصلاة لأن الجهلة يعتقدونها سنة أو واجبة وكل مباح يؤدي إليه فمكروه (در مختار ) قول ( لكنها تكره بعد الصلاة ) الضمير للسجدة مطلقا قال في شرح المنية آخر الكتاب عن شرح القدوري للزاهدي: أما بغير سبب فليس بقربة ولا مكروه وما يفعل عقيب الصلاة فمكروه لأن الجهال يعتقدونها سنة أو واجبة وكل مباح يؤدي إليه فمكروه۔ انتهى

 وحاصله أن ما ليس لها سبب لا تكره ما لم يؤد فعلها إلى اعتقاد الجهلة سنيتها كالتي يفعلها بعض الناس بعد الصلاة ورأيت من يواظب عليها بعد صلاة الوتر ويذكر أن لها أصلا وسندا، فذكرت له ما هنا فتركها۔ ثم قال في شرح المنية وأما ما ذكر في المضمرات أن النبي قال لفاطمة رضي الله عنها ما من مؤمن ولا مؤمنة يسجد سجدتين إلى آخر ما ذكر فحديث موضوع باطل لا أصل له انتهى۔

کفایت المفتی (414/3) میں ہے:

نماز کے بعد سجدہ دعائیہ کو فقہائے کرام نے مکروہ فرمایا ہے  ۔۔۔یعنی جو سجدہ کہ  نماز کے بعد کیا جاتا ہے مکروہ ہے کیونکہ عوام  اس کو واجب یا سنت اعتقاد کرلیتے ہیں اور جو مباح کہ اعتقاد وجوب یا سنیت  پیدا کرے مکروہ ہوجاتا ہے اسی عبارت سے معلوم ہوا کہ یہ سجدہ فی حد ذاتہا مباح ہے کراہت کی وجہ یہ ہے کہ اس مباح کو واجب یا سنت سمجھ لیا جاتا ہے یا لوگ دیکھ کر سمجھ لیتے ہیں اور جو کوئی نہ خود ایسا سمجھتا ہو اور نہ لوگوں  کے سامنے کرے بلکہ تنہائی میں کرے تو مباح ہے ۔ آنحضرت ﷺ یا صحابہ کرام ؓ یا ائمہ عظام کا یہ طریقہ نہ تھا ۔ 

خیر الفتاویٰ (444/2) میں ہے:

سوال :بعض لوگ نماز سے فارغ ہونے کے بعد سجدہ میں پڑھ کر کچھ دعا مانگتے ہیں اور بعض  رخساروں کو بھی زمین پر  رگڑتے  ہیں۔ کیا ایسا کرنا جائز ہے ؟ اگر جائز ہے تواس کا کسی کتاب سے ثبوت بھی ملتا ہے یا نہیں؟  جواب تفصیل سے  دیں۔

الجواب نماز کے متصل بعد سجدہ کرنا مکروہ ہے۔ عام حالات میں دعا کے لیے سجدہ جائز ہے۔ مگر التزام اس کا بھی بدعت ہے۔ رخساروں کو زمین پر ملنا عاجزی کے لیے ہو تو جائز ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved