• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

مزاروں پر جاکر دعاؤوں کی درخواست کرنا             

استفتاء

انڈیا میں کچھ لوگ ولیوں کی قبروں سے براہ راست نہ مانگ کر قبروں میں موجود ولی سے کہتے ہیں کہ آپ اللہ سے یہ دعا کریں کہ میرا یہ کام ہوجائے جب کہ ان کا انتقال ہو چکا ہوتا ہے لیکن ان کا ماننا ہوتا ہے کہ وہ قبروں میں زندہ ہیں اورہمارے لیے اللہ سے دعا کرسکتے ہیں۔تو کیا اس طرح سے مانگنا صحیح ہے ؟کیا یہ شرک ہے اور توبہ ضروری ہے ؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

کسی ولی یا بزرگ کی قبر یا مزار پر حاضر ہوکر ان سے دعا کی درخواست کرنا مختلف فیہ (علماء کا آپس میں اختلاف ہے ) ہےکیوں کہ اس کا مدار اس پر ہے کہ غیر انبیا قبروں میں سنتے ہیں یا نہیں؟ پس جو حضرات سماع (سننے )کے قائل ہیں ان کے نزیک صاحب قبر یا مزار سے دعا کی درخواست کرسکتے ہیں، اور جو حضرات سماع کی نفی کرتے ہیں ان کے نزدیک صاحب قبر یا مزار سے دعا کی درخواست کرنا بے معنی  ہے اور دلائل دونوں طرف ہیں،اس لیے احوط یہ ہے کہ صاحب قبر یا مزار سے دعا کی درخواست نہ کی جائے ،بالخصوص جب کہ عوام اس طرح کی چیزوں میں حدود کی رعایت نہیں کرتی اور براہ راست صاحب قبر یا مزار سے دعا کرنے لگتی ہے جو بلا شبہ ناجائز وحرام ہے ۔

فتاوی رشیدیہ (ص:138)میں ہے:

’’استعانت کے تین معنی ہیں ایک یہ کہ حق تعالیٰ سے دعاء کرے کہ بحرمت فلاں میرا کام کر دے یہ باتفاق جائز ہے، خواہ عندالقبر ہو خواہ دوسری جگہ ،اس میں کسی کو کلام نہیں ۔

دوسرے یہ کہ صاحب قبر سے کہے کہ تم میرا کام کر دو ،یہ شرک ہے ،خواہ قبر کے پاس کہے خواہ قبر سے دور کہے اور بعض روایات میں جو آیا ہے اعینو نی عباداللّٰہ تو وہ فی الواقع کسی میت سے استعانت نہیں بلکہ عبادا للہ جو صحرا میں موجود ہوتے ہیں ان سے طلب اعانت ہے کہ حق تعالیٰ نے ان کو اسی کام کے واسطے وہاں مقرر کیا ہے تو وہ اس باب سے نہیں ہے ،اس سے حجت جواز پر لانا جہل ہے معنی حدیث سے ۔

تیسرے یہ کہ قبر کے پاس جا کر کہے کہ اے فلاں تم میرے واسطے دعا کرو کہ حق تعالیٰ میرا کام کر دیوے ۔اس میں اختلاف علماء کا ہے ،مجوز سماع موتی اس کے جواز کے مقر ہیں اور مانعین سماع منع کرتے ہیں۔ سو اس کا فیصلہ اب کرنا محال ہے مگر انبیاء علیہم السلام کے سماع میں کسی کو خلاف نہیں اسی وجہ سے ان کو مستثنیٰ کیا ہے او ردلیل جواز یہ ہے کہ فقہاء نے بعد سلام کے وقت زیارت قبر مبارک کے شفاعت مغفرت کا عرض کرنا لکھا ہے ،پس یہ جواز کے واسطے کافی ہے اور جس کو قاضی صاحب نے منع لکھا ہے وہ دوسری نوع کی استعانت ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved