• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

سونے کے دانت پر زکوٰۃ کا حکم

استفتاء

اگر کس آدمی نے سونے کے دانت لگوائے ہیں اور وہ صاحب نصاب ہے تو کیا دانتوں کو بھی نصاب میں شامل کیا جائے گا یا نہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

سونے کے بنے ہوئے دانت اگر فکس ہیں یعنی ان کو جب چاہیں اتار نہیں سکتے تو ان دانتوں کو نصاب میں شامل نہیں کیا جائے گااور زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی ۔

توجیہ :جب سونا یا چاندی جزوبدن بن جائے اور اسے جدا نہ کیا جاسکتا ہو تو وہ مالِ نامی  ہی نہیں رہتا  (یعنی نہ اس میں حقیقتاً بڑھوتری ہوتی ہے اور  نہ حکماً) جبکہ زکوٰۃ مالِ نامی میں ہوتی ہے ۔

شامی(2/214) میں ہے:

(قوله نام ولو تقديرا) ‌النماء ‌في ‌اللغة بالمد: الزيادة، والقصر بالهمز خطأ، يقال: نما المال ينمي نماء وينمو نموا وأنماه الله تعالى كذا في المغرب. وفي الشرع: هو نوعان: حقيقي وتقديري؛ فالحقيقي الزيادة بالتوالد والتناسل والتجارات، والتقديري تمكنه من الزيادة بكون المال في يده أو يد نائبه بحر

تبیین الحقائق (1/255) میں ہے:

وقوله: نام، ولو تقديرا أي يشترط لوجوب الزكاة ‌أن ‌يكون ‌ناميا حقيقة بالتوالد والتناسل وبالتجارات أو تقديرا بأن يتمكن من الاستنماء بكون المال في يده أو يد نائبه لما ذكرنا أن السبب هو المال النامي فلا بد منه تحقيقا أو تقديرا فإن لم يتمكن من الاستنماء فلا زكاة عليه

امداد الفتاویٰ (4/37) میں ہے:

سوال:    اکثر لوگ دانت سونے کے تاروں سے بندھوالیتے ہیں یا کھوکھلے دانت کے اندر سونا بھر والیتے ہیں ۔ سونے کی ناک بنواکر چہرہ پر لگاتے ہیں اور یہ ناک بلاحرج جدا بھی ہوسکتی ہےلیکن دانت میں سے اس طرح سونا جُدا نہیں ہوسکتا۔ سوال یہ ہے کہ آیا صاحب نصاب پر اس سونے میں بھی زکوٰۃ واجب ہوگی ؟

الجواب: في الدرالمختار بعد عدالجزئیات المتعددة التي لافيها الزکوة ما نصه لعدم النمو وفي ردالمحتار؛لأنه غیر متمکن من الزیادة الخ ج۲،ص ۱۴۔

اس تعلیل سے معلوم ہوتا ہے کہ اس ناک میں تو زکوٰۃ واجب ہے اور جو سو نا دانت میں لگا یا بھرا ہے اس میں  واجب نہیں۔

امداد الفتاویٰ کے حاشیہ میں ہے:

اصول یہ ہے کہ جو چیز بدن کا جز بن جائے وہ مال کے حکم سے خارج ہو جاتی ہے اور جو چیز بدن سے الگ نہیں ہو سکتی وہ جزوبدن بن گئی وہ مال نہیں اس پر زکوۃ لازم نہیں لہذا جو سونا دانت میں بھر دیا گیا ہے وہ بدن کا جزوبن گیا اس پر زکوۃ نہیں اور اس کے بر خلاف جو چیز بدن سے الگ ہو سکتی ہے وہ بدن کا جزو نہیں ہوا لہذا سونے کی جو ناک لگوائی گئی ہے وہ اگر آسانی سے الگ ہو سکتی ہے وہ جزو بدن نہیں ہوتی وہ مال ہے اس کی زکوٰۃ لازم ہے اور جو ناک بدن سے جدا نہیں ہوسکتی وہ بدن کے تابع اور بدن کے جزو کے حکم میں ہے وہ مال نہیں اس لیے اس پر بھی نہیں۔

مسائل بہشتی زیور (1/346) میں ہے:

دانتوں کو سونے کی تاروں سے باندھا ہو یا سونے کا خول چڑھایا  گیا ہو اس سونے پر زکوٰۃ واجب نہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved