• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

“اسے میں نے اپنی ڈکشنری میں سے نکال دیا ہے” سے طلاق کا حکم

استفتاء

عرض ہے کہ میں اپنی بیوی **** کے سخت رویوں کی وجہ سے گھر سے بیماری کی حالت میں چلا گیا تھا۔ یہ واقعہ اگست 2018 کا ہے۔ بچے اپنی ماں کے ساتھ رہتے رہے۔ میں گھر سے باہر اکیلا سخت حالات میں زندگی گزار تارہا۔ غالباً نومبر 2019 میں میری پھوپھی مرحوم ہسپتال میں داخل تھیں اور اس دوران میں ان کے پاس انکی تیمارداری کے لیے جاتا تھا۔ ایک دن میری بیوی میرے بچوں کے ساتھ ہسپتال میں میری پھوپھی کی خیریت دریافت کرنے آئی اور اس موقعہ پر اس نے مجھ  سے بات کرنے کی بہت کوشش کی لیکن میرے ذہن میں ماضی میں اس کی طرف سے دی جانے والی ذہنی اذیت تھی جس کی وجہ سے میں نے اس سے بات کرنے سے نہ صرف صاف انکار کیا بلکہ غصہ اور نفرت کی حالت میں اس کے بارے میں نے اپنے بڑے بھائی کی موجودگی میں یہ کہہ دیا کہ “اسے میں نے اپنی ڈکشنری میں سے نکال دیا ہے۔” جبکہ اس کے علاوہ مجھے یاد نہیں کہ میں نے مزید کچھ کہا ہے یا نہیں۔ وقت گزرتا گیا یہاں تک کہ فروری 2024 میں اس نے مجھے گھر بلایا اور مجھ سے معاف کر دینے کو کہا جس پر میں نے اس کو معاف کر دیا۔ اس کے بعد سے ہم دونوں اپنے بچوں سمیت اکٹھے رہ رہے ہیں۔ البتہ بعد میں مندرجہ بالا جملہ جو میں نے اپنی بیوی کو سخت نفرت کی حالت میں کہا یعنی کہ “اسے میں نے اپنی ڈکشنری میں سے نکال دیا ہے” کے بارے میں  مجھے پریشانی ہوئی کہ اس جملہ کے بعد کیا ہمارا نکاح ٹوٹ تو نہیں گیا؟لہذا اس بارے میں آپ سے شریعت کے حوالے سے راہنمائی درکار ہے۔ مزید یہ کہ میری بیوی کی طرف سے مذکورہ واقعہ سے متعلق اس کی اپنی یاداشت بھی اس کی طرف سے تحریری طور پر ساتھ لف ہے تا کہ آپ دونوں کے بیانات کو سامنے رکھ کر شریعت کے حوالے سے ہماری راہنمائی فرما سکیں۔

وضاحت مطلوب ہے :مذکورہ جملہ بولتے وقت آپ کی نیت کیا تھی؟

جواب وضاحت:اس کے اچانک سامنے آنے کی وجہ سے میں شدید غصے میں آ گیا اور میں چاہتا تھا کہ اس وقت یہ مجھ سے کوئی بات نہ کرے اور دور ہو جائے۔ اس لیے مذکورہ الفاظ بولے تھے۔

بیوی کا بیان:

محترم میرا مسئلہ یہ ہے کہ ہم میاں بیوی کے درمیان جھگڑے کی وجہ سے ناراضگی ہو گئی۔ ایک جگہ ہمارا آمنا سامنا ہوا۔ میں نے اپنے خاوند سے معافی مانگی۔ اس وقت ہمارے درمیان میرے خاوند کے بڑے بھائی موجود تھے۔ خاوند نے اپنے بھائی سے مخاطب ہوکر یہ الفاظ کہے کہ “میرا اس  سے کوئی تعلق نہیں” الفاظ ٹھیک سے یاد نہیں یا یہ الفاظ تھے یا اس جیسے اور الفاظ تھے۔نیت اس وقت ان کی کیا تھی مجھے معلوم نہیں۔ہاں بعد میں انہوں نے کہا کہ میری ایسی کوئی نیت نہ تھی۔ میں صرف چاہتا تھا کہ تم اس وقت دور ہو جاؤ۔ ان الفاظ سے ہمارا نکاح ختم تو نہیں ہوا؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اگر شوہر اپنی بیوی کے سامنے  اس بات پر قسم دے دے کہ سوال میں ذکر کردہ الفاظ سے اس کی  طلاق کی نیت نہ تھی تو ان الفاظ سے کوئی طلاق واقع نہ ہوگی اور اگر شوہر بیوی کے سامنے قسم  دینے سے انکار کرے توبیوی اپنے حق میں ایک بائنہ طلاق شمار کرے گی تاہم  باہمی رضامندی سے دوبارہ نکاح کرنے کی گنجائش ہوگی۔

توجیہ: مذکورہ صورت میں شوہر نے اپنی بیوی کو شدید غصے کی حالت میں کہا ہے “اسے میں نے اپنی ڈکشنری میں سے نکال دیا ہے” جو کہ “میرا تیرا کوئی تعلق نہیں”  کے مترادف ہے۔ مذکورہ جملہ کنایات طلاق کی دوسری قسم میں سے ہے۔ اس قسم کے الفاظ اگر شوہر غصے کی حالت میں کہے تو اس کی نیت پوچھی جاتی ہے۔ اگر طلاق کی نیت ہو تو طلاق ہوتی ہے ورنہ نہیں بشرطیکہ وہ طلاق کی نیت نہ ہونے پر اپنی بیوی کے سامنے قسم دیدے۔ مذکورہ صورت میں چونکہ شوہر کا مقصد صرف اسے اپنے سے دور کرنا تھا اور طلاق کی بات اس کے ذہن میں نہ تھی لہذا اس سے طلاق واقع نہیں ہوئی۔ لیکن شوہر کو بیوی کے سامنے اس بات پر قسم دینی ہوگی کہ میری طلاق کی نیت نہ تھی۔ اور اگر شوہر قسم کھانے سے انکار کر دے تو بیوی اپنے حق میں ایک طلاق بائن شمار کرے گی۔

شامی (4/517) میں ہے :

 قوله:(والکنایات ثلاث إلخ) حاصله أنها كلها تصلح للجواب ای اجابته لها في سؤالها الطلاق منه، لكن منها يحتمل الرد أيضا …وقسم يحتمل السب والشتم لها دون الرد۔

نیز(4/521) میں ہے:

والحاصل أن الأول يتوقف على النية في حالة الرضا و الغضب والمذاكرة والثاني في حالة الرضا والغضب فقط .

الدر المختار (4/521) میں ہے:

والقول له بیمينه في عدم النية ويكفي تحليفها له في منزله فإن أبى رفعته للحاکم فان نکل فرق بینهما

تنویرالابصار (4/522) میں ہے:

وتقع رجعية بقوله اعتدى و استبرئى رحمك وأنت واحدة وبباقیها خلا اختاری البائن۔

الدر المختار (5/40) میں ہے :

وينكح مبانته بمادون الثلاث في العدة وبعدها

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved