• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

لڑکی کے والد کا حق مہر استعمال کرنے کا حکم

استفتاء

لڑکی کا والد کہتا ہے کہ مجھے حق مہر کی صورت میں ایک لاکھ روپیہ دو کیا وہ اپنے ہونے والے داماد سے حق مہر لے سکتاہے کہ اس کا  صرف لڑکی کو ہی  حق ہے؟

وضاحت مطلوب ہے کہ:کیا والد اسے اپنے ذاتی استعمال میں  لائے گا یا لڑکی کی مصلحت میں استعمال کرے گا؟

جواب وضاحت:شادی کے اوپر خرچ کرنا چاہتا ہے اور کہتا ہے کہ میں یہ حق مہر لے کے  بارات کےکھانے وغیرہ کا بندوبست کرنا چاہتا ہوں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

حق مہر لے کر بیٹی کے جہیز میں استعمال کرنا تو جائز ہے لیکن بارات وغیرہ  کے خرچے میں استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔ ہاں اگر اپنی  خوشی سے والد کو بطور تعاون دے دے تو گنجائش ہے۔

شامی313/4)) میں ہے:

وفيها ‌قبض ‌الأب مهرها وهي بالغة، أو لا، وجهزها، أو قبض مكان المهر عينا ليس لها أن لا تجيز لأن ولاية قبض المهر إلى الآباء.

فتح القدیر(باب الاولیاء والاکفاء،255/3)میں ہے:

(قوله وإنما يملك إلخ) يعني أن العادة جرت بقبض الآباء أصدقة الأبكار ليجهزوهن بها مع أموال أنفسهم من غير معارضة البنات في ذلك لآبائهن.

در المختار مع رد المحتار(باب النفقہ،345/5)میں ہے:

(وتجب) النفقة بأنواعها على الحر (لطفله) ‌يعم ‌الأنثى والجمع (الفقير) الحر…..(وكذا) تجب (لولده الكبير العاجز عن الكسب) كأنثى مطلقا

(قوله ‌كأنثى ‌مطلقا) أي ولو لم يكن بها زمانة تمنعها عن الكسب فمجرد الأنوثة عجز إلا إذا كان لها زوج فنفقتها عليه ما دامت زوجة.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved