• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

تصویر والی جگہ میں پڑھی ہوئی نماز کے اعادے کا حکم

استفتاء

حضرت مفتی صاحب نماز میں تقریبا 6سالہ بچہ  پیچھے  کمر پر کمر کے سائز کے برابر کارٹون بنی شرٹ پہن کراگلی صف میں کھڑا تھا، کیا پیچھے والوں کی نماز ہو گئی یا اعادہ ضروری ہے ؟امام صاحب جو عالم ہیں، انہوں نے فرمایا نماز نہیں ہوئی لیکن ایک اور صاحبِ مطالعہ نے کہا کہ یہ حکم بتوں کی پوجااور  ان کو   معبود یا ان کی  اہمیت دل میں رکھ کر نماز پڑھنے والوں کیلئے ہے۔آپ کے دل میں اس کارٹون کی ایسی ویسی اہمیت یا ذہن نہیں تھا، ایسی چھوٹی باتوں سے نماز فاسد نہیں ہوتی اور عالم صاحب فتوی دینے کے مجاز نہیں۔بر اہِ کرم راہنمائی فرمائیں

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں نماز  بلا کراہت  ہوگئی ہے لہذا اعادہ ضروری نہیں ہے۔

توجیہ:اگر نمازی کے سامنےجاندار کی بڑی تصویر ہوتو نماز مکروہ ہوتی ہےلیکن اس کراہت کا تعلق چونکہ افعالِ نماز سے نہیں ہے لہذا اس کی وجہ سے آدمی گناہ گار تو ہوتا ہےلیکن  نماز کا اعادہ ضروری نہیں  ہوتا نیز گناہ گار بھی تب ہوتا ہےجب تصویر کا ہٹانا اس کے اختیار میں ہواور وہ نہ ہٹائے،مذکورہ صورت میں اس تصویر کو ہٹانا چونکہ نمازی کے اختیار میں نہیں تھا اور نہ ہی اس کے لیے یہ مناسب تھا کہ وہ جماعت کی نماز چھوڑ دے  لہذا اس مجبوری کی صورت میں اسے گناہ بھی نہ ہوگا تاہم اس بچے کا والد گناہ گار ہوگا کہ اس نے اپنے بچے کو جاندار کی تصویر والی شرٹ کیوں پہننے دی۔نیز جن صاحب نے یہ بات کہی کہ”یہ حکم بتوں کی پوجا  اور ان کو معبود یا ان کی اہمیت دل میں رکھ کر نماز پڑھنے  والوں  کے لیے ہے”ان کی مذکورہ بات درست نہیں کیونکہ ایسی صورت میں نماز کا نہ ہونا تو الگ بات ہے ایسی صورت میں تو آدمی  کا مسلمان رہنا  بھی  مشکل ہے۔

صحیح بخاری(رقم الحديث:5605)میں ہے:

عن ابن عباس عن أبي طلحة رضي الله عنهم قال:قال النبي صلى الله عليه وسلم:لاتدخل ‌الملائكة بيتا فيه كلب ولا تصاوير.

ترجمہ:نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:جس گھر میں کتا یا(جاندارکی)تصاویر ہوں اس گھر میں فرشتے داخل نہیں ہوتے۔

المبسوط للسرخسی (1/ 210)میں ہے:

قال: (ولا بأس بالصلاة في بيت في قبلته تماثيل مقطوعة الرأس) لأن التمثال تمثال برأسه فبقطع الرأس يخرج من أن يكون تمثالا…. وإن لم تكن مقطوعة الرأس كرهتها في القبلة؛ لأن فيه تشبيها بمن يعبد الصور، ولكن هذا إذا كان كبيرا يبدو للناظرين من بعيد، فإن كان صغيرا فلا بأس؛ لأن من يعبد الصورة لا يعبد الصغير منها جدا، وقد كان على خاتم أبي موسى ذبابتان، ولما وجد خاتم دانيال  صلوات الله وسلامه عليه  كان على فصه أسدان بينهما رجل يلحسانه كأنه كان يحكي بهذا الابتداء، أو لأن التمثال في شريعة من قبلنا كان حلالا، قال الله تعالى: {يعملون له ما يشاء من محاريب وتماثيل} [سبأ: 13] وكما يكره في القبلة يكره في السقف أو عن يمين القبلة أو عن يسارها؛ لأن الأثر قد جاء أن الملائكة لا تدخل بيتا فيه كلب أو صورة فيجب تنزيه مواضع الصلاة عن ذلك إلا أنه إذا كانت الصورة على الحائط الذي هو خلف المصلي فالكراهة فيه أيسر؛ لأن معنى التعظيم والتشبيه بمن يعبد الصور تنعدم هنا، وكذلك إن كانت الصورة على الأرض والأزر والستور، وأما على البساط فنقول: اتخاذ الصورة على البساط مكروه، ولكن لا بأس بالنوم والجلوس عليه؛ لأن البساط يوطأ فلا يحصل فيه معنى التعظيم، وكذلك الوسادة، ألا ترى أنه قال في حديث جبريل أو تتخذ وسائد فتوطأ، فإن كان المصلي على البساط إن كانت الصورة في موضع وجهه أو أمامه فهو مكروه؛ لأن فيه معنى التعظيم يحصل بتقرب الوجه من الصورة، وإن كانت في موضع قدميه فلا بأس به؛ لأن معنى التعظيم فيه لا يحصل فصلاته جائزة على كل؛ لأن الكراهة ليست لمعنى راجع إلى الصلاة.

عمدۃ القاری (4/ 99)میں ہے:

عن عقبة بن عامر قال أهدي إلى النبي  صلى الله عليه وسلم  ‌فروج ‌حرير فلبسه فصلى فيه ثم انصرف فنزعه نزعا شديدا كالكاره له وقال لا ينبغي هذا للمتقين) …. (ذكر ما يستنبط منه من الأحكام) منها حرمة لبس الحرير للرجال….. ومنها ما احتج به بعضهم في جواز الصلاة في الثياب الحرير لكونه  صلى الله عليه وسلم  لم يعد تلك الصلاة ولا حجة لهم في ذلك لأن ترك إعادتها لكونها وقعت قبل التحريم أما بعده ففيه اختلاف العلماء فقال أصحابنا تصح صلاته ولكنها تكره ويأثم لارتكابه الحرام وبه قال الشافعي وأبو ثور وقال ابن القاسم عن مالك من صلى في ثوب حرير يعيد في الوقت إن وجد ثوبا غيره وعليه جل أصحابه وقال أشهب لا إعادة عليه في الوقت ولا في غيره وهو قول أصبغ وخفف ابن الماجشون لباسه في الحرب والصلاة للترهيب على العدو والمباهات وقال آخرون إن صلى فيه وهو يعلم أن ذلك لا يجوز يعيد.

امداد الفتاویٰ(1/287)میں ہے:

الجواب : …….. در مختار میں یہ قاعدہ لکھا ہے واجبات صلوۃ میں “كل صلوة اديت مع كراهة التحريم تجب إعادتها ” اور رد المحتار میں اس کے عموم پر ایک قوی اعتراض کر کے تصحیح کے لئے یہ توجیہ کی ہے “الا ان يدعى تخصيصها بان مرادهم بالواجب والسنة التي تعاد بتركه ما كان من ماهية الصلوة واجزائها”  پس صلوۃ خلف الفاسق و نحوہ میں اول تو کوئی امر اجزائے صلوٰۃ میں سے مختل نہیں ہوا اس لئے قاعدہ وجوب ِاعادہ کا جاری نہ ہوگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved