• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

ذہنی تشدد کی بنیاد پر عدالتی خلع کا حکم

استفتاء

محترم مفتیان کرام گزارش ہے کہ میری بہن نے عدالت سے تنسیخ نکاح کی ڈگری حاصل کی ہے جس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ میری بہن کا نکاح  زید  ولد  خالد  سے مؤرخہ 30 ستمبر 2020 کو ہوا ۔رخصتی نکاح کے کچھ عرصے بعد ہوئی۔ رخصتی سے قبل ہی لڑکا ،لڑکی اور ان کے گھر والوں کے درمیان کچھ معاملات شروع ہوگئے تھے مگر اس خیال سے کہ شادی کے بعد سب ٹھیک ہو جائے گا ہم نے رخصتی کر دی، کچھ عرصے بعد میری بہن حاملہ ہو گئی اور اللہ نے اسے بیٹے کی نعمت سے نوازا اس دوران بھی کچھ ادھر ادھر کی باتیں ہوتی رہیں مگر ہم نے ہر مرتبہ تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کیا۔ بیٹے کی پیدائش کے کچھ عرصے بعد ہی دوسری اولاد کی خوشخبری اللہ نے دی۔ ابھی میری بہن تین چار ماہ کی حاملہ تھی کہ اس کا شوہر اکتوبر 2022 میں کچھ ناراضگی کی وجہ سے اسے ہمارے گھر چھوڑ گیا۔ یہ بات بھی یہاں قابل ذکر ہے کہ دوسری اولاد کی خبر ملنے پر لڑکے کے گھر والوں نے لڑکے کو ڈانٹا اور اس کا بستر الگ کر دیا تھا۔ اسی طرح معاملات چلتے رہے اور لڑکے نے نہ اپنی حاملہ بیوی اور بیٹے کو مڑ کر  دیکھا اور نہ  ہی وہ ان کو خرچہ بھیجتا تھا اور نہ خیر خبر پوچھتا تھا۔ دوسری اولاد اللہ نے بیٹی عطا فرمائی، نہ شوہر ہسپتال آیا اور نہ اس کے گھر والے آئے اور نہ اس سارے دورانیہ میں ڈاکٹر یا دوائیوں کے اخراجات دیئے۔ بیٹی کی ولادت کی خبر سنائی تو اس نے کہا کہ یہ خبر مجھے کیوں سنا رہے ہو؟ لڑکی ہر صورت اپنا گھر بسانا چاہتی تھی اسی غرض سے وہ لڑکے کے ماموں کے پاس صلح صفائی کے لیے گئی تو انہوں نے مشورہ دیا کہ تم خود عید الفطر 2023 پر اپنے دونوں بچوں کے ہمراہ اپنے شوہر کے گھر چلی جاؤ اور معافی مانگ لو وہ تمہیں رکھ لے گا۔ لڑکی نے ماموں کے مشورے پر ایسا ہی کیا مگر لڑکے اور اس کے گھر والوں نے اسے نہ رکھا اور گھر سے نکال دیا۔ اس سارے عرصے میں تمام اخراجات میں خود ادا کرتا رہا۔ میری بہن نے مجبور ہو کر جولائی 2024 میں نان نفقہ کے لیے فیملی عدالت سے رجوع کیا۔ بہت انتظار کرنے کے بعد لڑکی کے گھر والوں نے دو افراد کو لڑکے سے بات چیت کے لیے بھیجا کہ معاملے کا کوئی حل نکل جائے۔ 23 دسمبر 2024 کو ان دو افراد کی لڑکے سے اس کے ماموں  کے گھر بات ہوئی جہاں لڑکے سے کہا گیا کہ بہت وقت گزر چکا ہے آپ لڑکی اور اس کے بچوں کو اپنے ساتھ تمام اختلافات بھلا کر لے جاؤ جس پر اس نے خاموشی اختیار کی جس کا مطلب انکار تھا پھر اسے کہا گیا کہ اگر آپ لڑکی کو نہیں رکھنا چاہتے تو پھر اس کو فیصلہ دے دو جس پر لڑکے نے جواب دیا کہ وہ عدالت سے تنسیخ نکاح کی ڈگری لے لے میں اسے طلاق نہیں دوں گا نہ وہ لڑکی کو رکھ رہا تھا نہ طلاق دے رہا تھا جس پر لڑکی نے عدالت سے تنسیخ نکاح کی ڈگری لے لی عدالتی نوٹس لڑکے نے وصول کیا تنسیخ نکاح کے کیس میں اس نے وکیل کے ذریعے جواب بھی جمع کرایا عدالت نے مصالحت کے لیے دونوں فریقوں کو پانچ مرتبہ بلایا جس پر صرف لڑکی عدالت حاضر ہوئی مگر لڑکا پانچوں مرتبہ نہ آیا۔ پانچویں مرتبہ لڑکے کے نہ آنے پر عدالت نے ڈگری جاری کر دی۔ کیا عدالت کے مذکورہ فیصلے سے نکاح فسخ ہو چکا ہے؟

شوہر کا بیان

میں کئی پیشیوں میں خود حاضر ہوا ہوں لیکن دو ماہ سے نہیں جا رہا اس لیے کہ میرے پاس وکیل موجود نہیں ہے۔ بچے کی ولادت کا خرچہ میرے ہیلتھ کارڈ پر ہوا ہے۔ بیوی کا مطالبہ والدین سے الگ گھر رکھنے کا تھا جبکہ میرے والدین بوڑھے ہیں میں اکلوتا بیٹا ہوں اور میں ان کو نہیں چھوڑ سکتا۔

بیوی کا بیان

صرف پہلے بیٹے کا خرچہ شوہر کے ہیلتھ کارڈ پر ہوا ہے باقی ہم نے خود خرچ کیا ہے۔ میں نے والدین سے الگ گھر کا مطالبہ نہیں کیا تھا بلکہ شوہر کے گھر میں اس کی مطلقہ بہن اور بھانجی رہتی تھی جس کی وجہ سے لڑائیاں ہوتی تھیں۔ جب ہم نے طلاق کا مطالبہ کیا تھا اس نے کہا کہ کورٹ سے خلع لے لو۔ چار دفعہ میں خود کورٹ حاضر ہوئی ہوں اور میری یہ نیت تھی کہ اگر شوہر آئے گا تو ہم صلح کر لیں گے لیکن شوہر کورٹ حاضر نہیں ہوا۔

وضاحت مطلوب ہے :کیا شوہر نے کبھی بیوی پر جسمانی تشدد کیا ہے؟

جواب وضاحت: جسمانی تشدد تو نہیں کیا لیکن ذہنی تشدد کرتا تھا۔ کئی مرتبہ لوگوں کے سامنے مجھے بے عزت کیا اور کہا کہ یہ عورت پاگل ہے۔ جب میں حاملہ تھی تو نہ میرے سے کھانا پوچھتا تھا اور نہ میری غذائی ضرورت پوری کرتا تھا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں عدالت کے مذکورہ فیصلے سے نکاح فسخ ہوچکا ہے لہٰذا عدت کے بعد عورت  جہاں چاہے نکاح کرسکتی ہے۔

توجیہ: مذکورہ صورت میں چونکہ شوہر بیوی پر ذہنی  تشدد کرتا تھا  جیسا کہ سوال میں ذکر کردہ مجموعی صورتحال سے معلوم ہورہا ہے  اور بیوی نے شوہر کے ذہنی تشدد  کی بنیاد پر تنسیخ نکاح کی درخواست دی ہے  اور ذہنی تشدد جسمانی تشدد سے بھی زیادہ اثر رکھتا ہے، اور فقہائے مالکیہ کے قول کے مطابق یہ فسخِ نکاح کی بنیاد بن سکتا ہے، اور فقہائے حنفیہ نے ضرورت کے وقت مالکیہ کے قول کو اختیار کرنے کی اجازت دی ہےاور عدالت نے  بھی شوہر کے بیوی پر تشدد کرنے کی بنیاد پر بیوی کے حق میں خلع کی ڈگری جاری کی ہے، لہذا عدالت کا فسخِ نکاح کا مذکورہ فیصلہ درست ہے اور عدالت کے فیصلے  کی وجہ سے بیوی کا نکاح فسخ ہوچکا ہے جس کی وجہ سے عدت کے بعد بیوی کسی اور جگہ نکاح کرنا چاہے تو کرسکتی ہے۔

مواہب الجلیل شرح مختصر الخلیل (228/5) میں ہے:

(ولها التطليق بالضرر) ش: قال ابن فرحون في شرح ابن الحاجب من الضرر قطع كلامه عنها وتحويل وجهه في الفراش عنها وإيثار امرأة عليها وضربها ضربا مؤلما.

شرح الكبير للدردير مع حاشیہ الدسوقى (345/2) میں ہے:

 (ولها) أي للزوجة (التطليق) على الزوج (بالضرر) وهو ما لا يجوز شرعا كهجرها بلا موجب شرعي وضربها كذلك وسبها وسب أبيها، نحو يا بنت الكلب يا بنت الكافر يا بنت الملعون كما يقع كثيرا من وعاع الناس ويؤدب على ذلك زيادة على التطليق كما هو ظاهر.

 (قوله ولها التطليق بالضرر) أي لها التطليق طلقة واحدة و تكون بائنة كما فى عبق

حیلہ ناجزہ (104 ) میں ہے:

ان كل طلاق اوقعه الحاكم فهو بائن الاطلاق المولى و المعسر وسواء أوقعه الحاكم بالفعل او جماعة المسلمين او امراها به” انتهى

فتاوی عثمانی (462/2) میں ہے:

یکطرفہ خلع شرعا کسی کے نزدیک بھی جائز اور معتبر نہیں، تاہم اگر کسی فیصلے میں بنیاد فیصلہ فی الجملہ صحیح ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ البتہ عدالت نے فسخ کے بجائے خلع کا راستہ اختیار کیا ہو اور خلع کا لفظ استعمال کیا ہو تو ایسی صورت میں خلع کے طور پر تو یکطرفہ فیصلہ درست نہ ہو گا تاہم فسخ نکاح کی شرعی بنیاد پائے جانے کی وجہ سے اس فیصلے کو معتبر قرار دیں گے اور یہ سمجھا جائے گا کہ اس فیصلے کی بنیاد پر نکاح فسخ ہو گیا ہے اور عورت عدت طلاق گزار کر کسی دوسری جگہ اگر چاہے تو نکاح کر سکتی ہے۔

حضرت ڈاکٹر مفتی عبد الواحد صاحب ؒنے اپنے ایک فتوے میں لکھا ہے:

’’عدالت نے شوہر کی طرف سے کچھ جسمانی لیکن انتہائی ذہنی تشدد دینے کی وجہ سے خاتون کا نکاح خلع کی بنیادپر فسخ کردیا ہے اور ذہنی تشدد جو کہ جسمانی تشدد سے بھی زیادہ اثر رکھتا ہے، یہ مالکیہ کے قول کے مطابق فسخ نکاح کی بنیاد بن سکتا ہے اور فقہائے احناف نے ضرورت کے موقع پر مالکیہ کے قول کو اختیار کرنے کی اجازت دی ہے‘‘ [فتویٰ نمبر: 7/209]

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved