• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

مہر میں دیے گئے کمرہ کی سسر کی وراثت میں تقسیم کا حکم

استفتاء

درج ذیل مسائل سے متعلق شرعی رہنمائی درکار ہے :

(1) ایک عورت جس کے حق مہر میں مکان کا ایک مخصوص و  متعین کمرہ لکھا گیا ، نکاح نامے میں مندرج عبارت درج ذیل ہے ؛

ایک کمرہ مکان جس کی مالیت 50 ہزار روپیہ۔

(1)  ایک عدد کمرہ گلی کی طرف منجملہ نمبر 155 جو لڑکی کے نام کیا گیا ہے ۔ ( تصویر ساتھ ملحق ہے )

دریافت طلب امر یہ ہے کہ کیا اس  عبارت سے حق مہر میں پچاس ہزار روپیہ ثابت ہوں گے یا لکھا گیا کمرہ ہی ثابت ہو گا ؟ ( جبکہ موجودہ دور میں اس کمرے کی قیمت 50 ہزار سے  زیادہ ہے)

واضح رہے کہ جس وقت یہ نکاح ہوا اس وقت یہ مکان دولہے کی ملکیت میں نہیں تھا بلکہ سسر کی ملکیت تھا اور سسر کی موجودگی میں ہی نکاح ہوا اور حق مہر لکھا گیا ۔ لیکن اب سسر کے انتقال کے بعد  یہ مکان ورثاء کے درمیان تقسیم ہونے جا رہا ہے   تو کیا اب یہ حق مہر دولہے کے موروثی حصے میں سے ادا کیا جائے گا یا لڑکی کا مستقل حصہ ہو گا (حق مہر کی بنیاد پر) اور لڑکے کا الگ حصہ ہو گا (وراثت کی بنیاد پر)

تنقیح : سسر  نے مہر میں  یہ کمرہ خود لکھوایا تھا ۔نیز شادی کے بعد سسر کی حیات میں یہ کمرہ لڑکی کے تصرف میں دے دیا گیا تھا جس میں اس کی رہائش تھی اور اس کا   سامان بھی  تھا ۔

(2)  مذکورہ مکان میں ایک بیٹے نے  والد کی زندگی میں ہی  کچن الگ کرنے کے لیے پہلی منزل پر تعمیرات کیں اور مکان بنایا  جس میں ایک عدد کمرے کی دیواروں کا معتد بہ حصہ  مشترکہ دور (یعنی جب گھر کا خرچہ مشترک تھا) میں تعمیر ہو چکا تھا۔ اس کے بعد بیٹے نے  بقیہ تعمیر ( دیواروں کی تکمیل ، چھت اور ایک عدد کچن مکمل طور پر ) مکمل کی اور پھر کچھ  وقفے کے بعد والد کی زندگی میں ہی ایک عدد ہال کمرہ بھی اپنے پیسوں سے تعمیر کروایا ۔اب جب یہ مکان وراثت میں تقسیم ہونے جا رہا ہے تو  کیا وہ بیٹا جس نے تعمیرات میں اپنا پیسہ لگایا وہ اپنے وراثتی حصے کے ساتھ  ان پیسوں کا مطالبہ کر سکتا ہے جو اس نے تعمیر میں لگائے؟  اگر ہاں تو کتنے پیسوں کا مطالبہ کر سکتا ہے ؟ کیا جتنا خرچہ ہوا صرف اسی رقم کا مطالبہ کر سکتا ہے یا موجودہ ریٹ کے حساب سے اپنے لگائے  پیسوں کا مطالبہ کرنے کا حق رکھتا ہے؟

تنقیح :  مشترکہ نظام کی صورت یہ تھی کہ والدا ور دو بیٹے  الگ الگ کماتے تھے لیکن گھر کا خرچہ اس وقت اکٹھا ہوتا تھا اور بڑا بیٹا پیسے گھر میں دیتا تھا  ۔ اس وقت میں تعمیر شروع  کی گئی  جو نامکمل ہوئی ۔ اور   یہ ساری تعمیرات پہلے والی ا ور بعد والی سب والد صاحب کی موجودگی میں ان کی اجازت سے کی گئیں ۔

ہمارے گھر کا عرف یہ ہے جب تک گھر کا خرچ مشترک ہو تو   کمائی والد کے ہاتھ میں دے  دی جاتی ہے اور والدین اپنی صوابدید سے اس کو خرچ کرتے  ہیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

(1)مذکورہ صورت میں  مہر میں لکھوایا  گیا متعین کمرہ یا اس کی موجودہ قیمت  سسر  کی وراثت میں  سے مستقل طور پر  لڑکی کو   ادا کی جائیگی   اسے  لڑکے کے حصے میں سے نہیں دیا جائے گا  ۔

توجیہ : عقد نکاح کے وقت  سسر  کا    اپنے   ملکیتی                 کمرے  کو   بہو کے مہر  میں لکھوانا ضمانت ہے  اور شوہر کا  ولی ہونے کی حیثیت سے سسر کا ضامن بننا درست  بھی ہے   اس لیے اس کی ادائیگی بھی انہی کے ترکہ میں سے کی جائیگی ۔

(2) مذکورہ صورت میں    وہ تعمیر   جو  بیٹے نےاس وقت کی تھی جب گھر کا  خرچہ مشترک تھا  وہ تعمیر والد کی وراثت میں تقسیم ہوگی ۔ اور جو تعمیر  والد سے  علیحدہ ہونے کے بعد کی ہے  اس کا مالک یہ بیٹا ہی ہے یہ تعمیر   والد کے ورثاء میں تقسیم نہیں ہوگی ۔  اگر دیگر ورثاء اس کی قیمت اس بیٹے کو ادا کر کے اسے لینا  چاہیں  تو  کسی سے اس گھر کے دو ریٹ  لگوالیں ایک  ریٹ اس مذکورہ تعمیر کے ساتھ  اور دوسرا اس تعمیر کے بغیر  ۔ دونوں میں جو فرق ہو وہ اس بیٹے کو ادا کردیں ۔

توجیہ : مشترکہ خاندانی نظام میں جہاں  گھر کا سربراہ والد ہواور بیٹے  اپنی  کمائی والد کو دے دیتے ہوں   تو    والد کو اس مال کا مالک سمجھا جائے  گا یا نہیں  اس کا فیصلہ اس خاندان کے عرف سے ہوتا ہے۔ اور سائل  کے خاندان کا عرف بھی چونکہ  یہی ہے کہ والد کو  ہی بیٹوں کی کمائی  کا مالک سمجھا جاتا ہے  اور  بیٹے باپ کے معاون  شمار ہوتے ہیں  اور والد  بیٹوں کے مال  پر مالکانہ  تصرفات بھی  کرتا ہے ۔ لہٰذا جب تک گھر کا خرچہ مشترک تھا اس   عرصہ میں بیٹے نے جو تعمیرات کیں  ان سب کے مالک   سائل کے والد تھے اور جو تعمیر ات بیٹے نے علیحدہ  ہونے کے بعد کی ہیں      اس کا مالک تعمیر کرنے والا بیٹا ہے ۔اس  لیے والد کا ملکیتی حصہ  وراثت میں تقسیم ہوگا  ۔

1۔شامی (3/140) میں ہے:

(‌وصح ‌ضمان ‌الولي مهرها ولو صغيرة وتطلب أيا شاءت) من زوجها البالغ، أو الولي الضامن .

خیر الفتاویٰ (4/534)میں ہے:

سوال: محمد سلیم کا نکاح ہوا،اس وقت 30 ہزار روپے اور ایک مرلہ زمین حق مہر مقرر ہوا،اب سلیم اپنے والد ابراہیم سے کہتا ہے کہ ایک مرلہ حق مہر زمین ادا کرو،شریعت کے رو سے فرمائیں کہ آیا مہر خاوند کے ذمے ہے یا اس کے والد کے ذمہ؟ جبکہ والد نے زبانی طور پر کوئی قید و شرط نہیں لگائی کہ میں ادا کروں گا۔البتہ نکاح نامہ میں والد کی اجازت سے ایک مرلہ مکان کی زمین بطور مہر کے لکھی گئی تھی۔

جواب: بر تقدیر صحت واقع صورت مسئولہ میں والد کو چاہیے کے مکان کا جتنا حصہ بطور مہر لکھوایا تھا وہ یا اس کی قیمت وہ محمد سلیم کی زوجہ کو ادا کرے۔مہر کے خانہ میں لکھوانا ایک قسم کی ضمانت ہے اور ولی شرعاً مہر کا ضامن بن سکتا ہے۔

2۔امدادالفتاوی (3/515) میں ہے :

سوال: ایک استفتاآیا ہے جس کا جواب یہ  سمجھ میں آتا ہے لیکن دو متضاد روایت قیل قیل کرکے لکھا ہے کس کو ترجیح دی جاوے شامی فاروقی ص:349۔  فصل في الشركة الفاسدة (تنبيه) یؤخذ من هذا ما أفتی به في الخيرية: في زوج امراة وابنها اجتمعا في دار واحدة وأخذ کل منهما یکتسب علی حدة  ویجمعان كسبهما، ولا یعلم التفاوت ولا التساوي ولا التمیز، فأجاب بانه بينهما سوية الخ۔ چند سطر بعد لکھا ہے: فقیل: هى للزوج وتکون المرأة  معينة إلا إذا کان لها کسبًا علی حدة فهولها، وقیل: بينهما نصفان 

الجواب: میرے نزدیک ان دونوں روایتوں میں تضاد نہیں ، وجہ جمع یہ ہے کہ حالات مختلف ہوتے ہیں جن کی تعیین کبھی تصریح سے کبھی قرائن سے ہوتی ہے، یعنی کبھی تو مراد اصل کا سب ہوتا ہے اور عورت کے متعلق عرفاً کسب ہوتا ہی نہیں وہاں تو اس کو معین سمجھا جاوے گا اور کہیں گھر کے سب آدمی اپنے اپنے لئے کسب کرتے ہیں ، جیسا اکثر بڑے شہروں میں مثل دہلی وغیرہ کے دیکھا جاتا ہے وہاں دونوں کو کاسب قرار دے کر عدم امتیاز مقدار کے وقت علی السویہ نصف نصف کا مالک سمجھا جاوے گا۔ واللہ اعلم

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved