- فتوی نمبر: 33-394
- تاریخ: 19 اگست 2025
- عنوانات: حظر و اباحت > اخلاق و آداب
استفتاء
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ :
1۔اگر سکول میں کوئی لیڈی ٹیچر چھینکنے کے بعد الحمد للہ کہے تو کیا بالغ غیر محرم اسٹوڈنٹ پر جواباً یر حمک اللہ کہنا شرعاً لازم ہے ؟
2۔اور اگر بالغ سٹوڈنٹ چھینکنے کے بعد الحمد للہ کہے تو کیا غیر محرم لیڈی ٹیچر پر یرحمک اللہ کہنا شرعاً لازم ہے ؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1،2۔ مذکورہ صورتوں میں چھینک کا جواب دینے کی گنجائش ہے البتہ شرعاً لازم نہیں ہے۔
توجیہ:غیر محرم کی چھینک کے جواب دینے کا حکم غیر محرم کو سلام کے جواب کی طرح ہے ۔اور غیر محرم کو سلام کا جواب دینا اس وقت ممنوع ہے جب سلام کی کوئی معقول وجہ نہ ہو بلکہ سلام برائے سلام ہو جبکہ مذکورہ صورت میں معقول وجہ استاد،شاگرد ہونا ہے۔لہذا مذکورہ صورت میں چھینک کا جواب دینا جائز ہے۔
المحیط البرہانی(5/ 330) میں ہے:
إذا عطست المرأة فلا بأس بتشميتها؛ إلا أن تكون شابة، وإذا عطس الرجل فشمتته المرأة، فإن كانت عجوزاً يرد الرجل عليها، وإن كانت شابة يرد في نفسه، والجواب في هذا كالجواب في السلام.
شامی (1/ 618) میں ہے:
رد السلام واجب إلا على … من في الصلاة أو بأكل شغلا
أو شرب أو قراءة أو أدعيه … أو ذكر أو في خطبة أو تلبيه
أو في قضاء حاجة الإنسان … أو في إقامة أو الآذان
أو سلم الطفل أو السكران … أو شابة يخشى بها افتتان
عمدة القاری شرح صحيح البخاری (22/ 243)میں ہے:
(باب تسليم الرجال على النساء والنساء على الرجال)
أي: هذا باب في بيان جواز تسليم الرجال … إلى آخره. ولكن بشرط أمن الفتنة، وأشار بهذه الترجمة إلى رد ما أخرجه عبد الرزاق عن معمر عن يحيى بن أبي كثير: بلغني أنه يكره أن يسلم الرجال على النساء، والنساء على الرجال، وهو مقطوع أو معضل.
بذل المجہود (رقم الحدیث:5205)میں ہے:
(………أخبرته أسماء بنت يزيد) قالت: (مر علينا النبي – صلى الله عليه وسلم – في نسوة) حال من ضمير علينا (فسلم علينا).قال ابن الملك: وهو مختص بالنبي – صلى الله عليه وسلم – لأمنه من الوقوع في الفتنة، وأما غيره فيكره له أن يسلم على المرأة الأجنبية إلا أن تكون عجوزا بعيدة من مظنة الفتنة، قيل: وكثير من العلماء لم يكرهوا تسليم كل منهما على الآخر، وقال الحليمي: كان صلى الله عليه وسلم مأمونا عن الفتنة، فمن وثق من نفسه بالسلامة فليسلم وإلا فالصمت أسلم.
احسن الفتاوی(8/41)میں ہے:
سوال:عورت کے لیے غیرمحرم مرد کو سلام کرنا یا اس کے سلام کا جواب دینا جائز ہے یا نہیں؟
جواب:اجنبی مرد اور عورت کے لیے ایک دوسرے کو سلام کرنا یا سلام کا جواب دینا جائز نہیں اگر کسی نے سلام کیا تو دوسرا دل میں جواب دے آواز سے نہ دے البتہ اگر کسی ضرورت سے بات کرنے کی نوبت آئے تو سلام اور رد سلام کی گنجائش ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved