- فتوی نمبر: 34-67
- تاریخ: 14 اکتوبر 2025
- عنوانات: خاندانی معاملات > طلاق کا بیان > خلع و تنسیخ نکاح
استفتاء
دوبہنوں نے اپنی اولاد کے رشتوں میں وٹہ سٹہ کیا اس طرح کہ بڑی بہن نے اپنے بیٹے (زید) کا نکاح چھوٹی بہن کی بیٹی سے 27 سال قبل کیا اور اسی موقع پر بدلے میں اپنے بیٹے(عمر) کی پانچ سالہ لڑکی کا نکاح چھوٹی بہن کے بیٹے (بکر) سے جو نا بالغ تھا کر وادیا۔ یہ نکاح اس لڑکی کے والد اور دادا کی موجودگی میں ہوا۔بعد از بلوغت بھی یہ نکاح جاری رہا اور لڑکا (بکر) اور لڑکی رضا مند تھے اور رابطے میں بھی رہے لیکن آج سے 7 سال قبل لڑکی نے رخصتی سے انکار کر دیا حالانکہ لڑکا مکمل تندرست اور نان نفقہ دینے کے قابل ہے۔
لہذا جب علاقے کے معززین کو مسئلے کے حل کے لیے بٹھایا گیا تو لڑکی کے والد (عمر) (بکرکے سسر) نے کہا کہ مجھے اپنے بیٹے خالد کے لیے ایک اور وٹہ دو تو پھر ہی میں اپنی بیٹی کی رخصتی دوں گا اور وٹہ بھی اپنی اس بھتیجی (زید کی بیٹی) (جس کی عمر اس وقت 17 یا 18 سال ہوگی) کا مانگ رہا تھا ( یعنی اس خاتون کی بیٹی کا جس کا وٹہ سٹہ 27 سال قبل اس آدمی کی پانچ سالہ بیٹی سے ہوا تھا)۔
نہ چاہتے ہوئے بھی اس کی شرط کو قبول کر لیا گیا اور ایک اور نکاح دے دیا لیکن چونکہ اس کے دل میں چور تھا اور معززین کو بھی اس نے اپنی سائیڈ کیا ہو اتھا تو اس نے رخصتی دینے سے انکار کر دیا اور عدالت سے نکاح فسخ کی درخواست دائر کر دی۔ لڑکے (بکر) کے پاس عدالتی نوٹس آیا لیکن لڑکا حاضر نہ ہوا تو تنسیخ ہوگئی۔اب عدالتی تنسیخ شرعی حیثیت رکھتی ہے یا نہیں؟ رہنمائی فرمائیں۔
2۔ دوسری طرف وہ بھتیجی جس کا اس نے اپنے بیٹے سے معززین کی موجودگی میں نکاح کیا (جس کی عمر تقریباً 25 سال ہوچکی ہے) اس کو نہ تو طلاق دینے پر وہ راضی ہیں اور نہ ہی رخصتی لینے پر کیونکہ یہ اس نے محض ایک کھیل کھیلا تھا جس میں وہ کامیاب ہو گیا جس کا مہر اعلاقے کے معززین بنے لہذا اس کا حل بھی تجویز فرمادیں آپ کی عین نوازش ہو گی۔
وضاحت مطلوب ہے:1۔مذکوره صورت میں عدالتی تنسیخ شرعاً معتبر ہے یا نہیں ؟ اس کیلئے بیوی کا مؤقف مع عدالتی کا غذات درکار ہیں۔ اس کے بغیر جواب دینا ممکن نہیں ۔2۔آپ کا اس سوال سے کیا تعلق ہے؟جس لڑکی کی طلاق لینا چاہتے ہیں اس کے والد کا رابطہ نمبر ارسال کریں۔3۔ دوسرے فریق کا رابطہ نمبر ارسال کریں۔
جواب وضاحت:(1)عدالتی کاغذات صرف پنچایت والوں کو دکھائے جاتے ہیں۔(2) سمیع(لڑکی کا بھائی) *******(3) عمر (لڑکے کا والد) *******
سمیع (لڑکی کے بھائی) سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے سوال میں مذکور تفصیل کی تصدیق کی،اور مزید بتایا کہ لڑکے والے اس پورے عرصے میں دو سے تین بار گھر آئے لیکن ہر بار لڑائی جھگڑے پر بات ختم ہوتی،اور رخصتی نہ لیتے۔
عمر (لڑکے کے والد) سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا ہے کہ جن بچے،بچی کا نکاح آپس میں ہوا تھا یعنی خالد کا نکاح وہ دونوں کے بالغ ہونے کی حالت میں ہوا تھا۔ہم نے کئی بار رخصتی لینے کی کوشش کی لیکن انہوں نے ہر بار ٹال مٹول کر کے معاملہ کو لٹکائے رکھا۔بچی کے والد سعودیہ میں ہوتے ہیں ڈیڑھ دو سال بعد آتے ہیں جب بھی وہ پاکستان آتے ہیں تو ہم ان کے گھر جاتے ہیں رخصتی لینے لیکن ہر بار کسی نہ کسی وجہ سے رخصتی نہیں دیتے۔نکاح میں جن شرائط کے ساتھ نکاح ہوا تھا انہوں نے وہ شرائط بھی بڑھا دی ہیں لیکن ہم اس کے باوجود خوشی سے رخصتی لینے کے لیے تیار ہیں۔اس سب کے باوجود وہ یہ چاہتے ہیں کہ آپ بس بچی کو طلاق دیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔شوہر کی رضامندی کے بغیر عدالت سے خلع لے لینے سے شرعاً نکاح ختم نہیں ہوتا،الا یہ کہ نکاح فسخ کروانے کی کوئی معتبر شرعی بنیاد موجود ہو مثلاً شوہر رخصتی نہ کرتا ہو یا نان و نفقہ نہ دیتا ہو یا ظلم و زیادتی کرتا ہو وغیرہ تو ان صورتوں میں شوہر کی رضامندی کے بغیر بھی عدالت سے نکاح فسخ کروانا درست ہے۔مذکورہ صورت میں سائل کے بیان کے مطابق نکاح فسخ کروانے کی کوئی معتبر بنیاد موجود نہیں تھی بلکہ لڑکی والوں نے شوہر کی رضامندی کے بغیر ہی بلا وجہ عدالت سے خلع لے لیا تھا،اس لیے یہ خلع معتبر نہیں اور نکاح قائم ہے۔
2۔مذکورہ صورت میں اگر سائل کا یہ بیان درست ہے کہ شوہر استطاعت کے باوجود اور نان و نفقہ پر قادر ہونے کے باوجود بیوی کی رخصتی نہیں لے رہا اور نہ ہی طلاق دے رہا ہےاور معاملہ کو لٹکائے ہوئے ہے تو ایسی صورت میں عدالت سے نکاح فسخ کروانا شرعاً معتبر ہوگا۔لیکن اگر سائل کا یہ بیان درست نہیں بلکہ شوہر رخصتی کرکے بیوی کو آباد کرنے اور دیگر حقوق ادا کرنے کے لیے تیار ہے تو شوہر کی رضامندی کے بغیر عدالتی تنسیخ شرعاً معتبر نہ ہوگی۔
نوٹ:دوسرے فریق سے عدالتی کاغذات اور بیوی کا مؤقف طلب کیا لیکن انہوں نے ہماری اس مطلوبہ چیز میں معاونت نہیں کی جس کے بنا پر سائل کی فراہم کردہ معلومات کے مطابق فتوی دیا جا رہا ہے۔
بدائع الصنائع (229/3) میں ہے:
وأما ركنه فهو الايجاب والقبول لانه عقد على الطلاق بعوض فلا تقع الفرقة ولا يستحق العوض بدون القبول
اسلام کے عائلی قوانین (ص192)میں ہے:
’’ترک مجامعت اور بیوی کو معلقہ بناکر رکھنا بھی تفریق کے اسباب میں سے ایک سبب ہے کیونکہ حقوق زوجیت کی ادائیگی واجب ہے ۔حقوق زوجیت ادا نہ کرنا اور بیوی کو معلقہ بنا کررکھنا ظلم ہے اور رفع ظلم قاضی کا فرض ہے‘‘
کفایت المفتی (298/5) میں ہے:
’’سوال: ہندہ منکوحہ کئی سال سے اپنے گھر بیٹھی ہے۔اس کا شوہر جو شرعاً بعدعقد ہوا ہے کسی شہر میں گوشہ نشین بنا بیٹھا ہے۔ جب رخصتی کا خط اس کے پاس جاتا ہے تو تاریخ مقررہ میں نہیں آتا بلکہ خود تاریخ معین کرتا ہے اور اس میں بھی نہیں آتا۔ ہم لوگ برابر منتظر رہے کہ آئے اور شادی ہو مگر کئی تاریخیں ٹل گئی ہیں۔اور یہ قصہ اب کا ہے، ورنہ اس سے قبل جب نکاح ہوا تھا دونوں یعنی ہندہ اور اس کا شوہر نابالغ اورنابالغہ تھے۔ ماں باپ کی خوشی پر بچے نے ایجاب و قبول کیا تھا۔ اور باپ کی قدرت سے باہر ہے کہ ایسی صورت میں جب کہ میرے کچھ اختیارات ان پر ہیں رخصت کیونکر ہوگی اوربچی غریب کا کیا حال ہوگا۔ کچھ شرعی طریقہ ایسا فرمایئے ، یا ایسا حکم خاص صادر فرما دیں جس سے بچی ہندہ کی داد رسی ہوسکے۔ آپ حقیقت میں شرعی حاکم ہیں۔ اگر مناسب سمجھیں تو اس قسم کے جوابات الجمعیۃ کے احکام و حوادث میں شائع فرمادیں۔
جواب (۴۸۹): اگر عورت کے لئے گزارے اور حفظ عصمت کی کوئی صورت نہیں ہے اور خاوند ان امور کی پرواہ نہیں کرتا تو عورت کو حق ہے کہ کسی مسلمان حاکم کی عدالت سے اپنا نکاح فسخ کرائے او رپھر عدت گزار کر دوسرا نکاح کرے۔ (محمد کفایت اللہ کان اللہ لہ، دہلی)‘‘
خیر الفتاویٰ (6/68)میں ہے:
خاوند جب تک اپنی زوجہ کے حقوق زوجیت پوری طرح ادا کرنے پر قادر ہو اور نان و نفقہ کا بھی انتظام کرتا ہو اس وقت تک اس کی زوجہ کا نکاح شرعاً قابل فسخ نہیں ہوتا،اگر جج اپنے کسی قانون کے تحت فسخ بھی کر دے تو بھی شریعت میں وہ فسخ معتبر نہیں ہوتا بلکہ شریعت میں وہ قائم رہتا ہے،اور شرعاً عورت کا دوسری جگہ نکاح درست نہیں ہوتا۔
فتاویٰ عثمانی(2/463)میں ہے:
یک طرفہ خلع شرعاً کسی کے نزدیک بھی جائز اور معتبر نہیں۔تاہم اگر کسی فیصلے میں بنیادِ فیصلہ فی الجملہ صحیح ہو،یعنی شوہر کا “تعنت”ثابت ہورہا ہو،البتہ عدالت نے فسخ کے بجائے خلع کا راستہ اختیار کیا ہو،اور خلع کا لفظ استعمال کیا ہو تو ایسی صورت میں خلع کے طور پر تو یک طرفہ فیصلہ درست نہ ہوگا،تاہم فسخِ نکاح کی شرعی بنیاد پائے جانے کی وجہ سے اس فیصلے کو معتبر قرار دیں گے اور یہ سمجھا جائے گا کہ اس فیصلے کی بنیاد پر نکاح فسخ ہوگیا ہے،اور عورت عدّتِ طلاق گزار کر کسی دوسری جگہ اگر چاہے تو نکاح کرسکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved